کانگو وائرس اور عیدالاضحی

جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والاجان لیوا بیماری

تحریر کنندہ : ڈاکٹر دین محمد مہمند(سینئر ریسرچ آفیسر،ویٹرنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ پشاور)

طبی ماہرین نے عیدالاضحی کے موقع پرجانوروں سے انسانوں میں کانگووائرس کے منتقل ہونے کے خطرے کے پیش نظرفوری پیشگی حفاظتی اقدامات کی ضرورت پرزوردیاہے۔کانگو بخار کے کیسز عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر جان لیوا مرض سے بچنے کیلئے خاص اختیاط کی ضرورت ہوتی ہیں۔  اس سال قربانی کے جانوروں سے اس مرض کے پھیلنے کاشدیدخطرہ ظاہرکیاجارہاہے۔زیرنظرمضمون عوام الناس میں کانگووائرس  کے بارے میں شعوربیدارکرنے کی ایک کاوش ہے۔کانگو وائرس جان لیوامرض ہے۔ جوجانوروں اورمویشیوںکی جلدپرپلنے والے ایک خاص قسم کاکیڑا ٹکس (Ticks) (چیچڑ،کونئیے)  کے کاٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔

کانگووائرس ان ٹکس (چیچڑ) کے بدن کے اندرموجودہوتا ہے۔جون سے ستمبرتک چیچڑ(Tick)کی افزائش زیادہ ہوتی ہے۔اگریہ ٹکس کسی انسان کوکاٹ لیں یاکانگووائرس سے متاثرہ جانورذبح کرتے وقت بے احتیاطی سے انسان کے ہاتھ پرکٹ لگ جائے،تویہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اوریوں انسان کانگوبخارمیں مبتلاہوجاتاہے۔

تاریخی پس منظر:

                         اصل میں کانگو وائرس تو وہ جرثو ماہے جسکی وجہ سے یہ بیمار ی ہوتی ہے ۔ بیماری کا اصل نام تو کریمن کانگو ہمیرجک فیور(CCHF) Congo-Crimean Haemorrhagic Feverہے۔ دراصل اس بیماری کا سب سے پہلا شکار ایک روسی فوجی تھا ، جو کریمیا شہر میں 1944 ء میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ 2005ء میں پہلی مرتبہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدپر ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں لوگ اس بیماری کے شکار پائے گئے ۔

 ڈاکٹر اخلاق حسین (میڈیکل سپرننٹڈنٹ کوئٹہ ہسپتال)کے مطابق اس قسم کا پہلا کیس جون 2001 میں رپو رٹ ہوا تھا ،جبکہ اس سے پہلے کئی اموات اس طرح کی علامت کے ساتھ ہو چکی تھیں۔ لیکن ہم اس بیماری کی وجہ سمجھنے سے قاصررہے ،متاثرہ مریض کے خون کے دو نمونے بیک وقت نیشنل وائرولوجی سنٹر اسلام آباد اور سائوتھ افریقا انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی جو ہانسبرگ بھیجے گئے۔

 جن کے نتائج کے بعد یہ ثابت ہو کہ یہ مرض CCHF ہی ہے۔خیبر پختون خوا میں پہلی باریہ بیماری ستمبر2010 میں رپورٹ ہوئی۔ پاکستان میں یہ مرض عیدالاضحی کے موقع پر زیادہ پایا جاتا ہے، کیونکہ متاثرہ جانوروں کے ذبح کے دوران جانوروں کے خون کے ذریعے انسانوں کولگ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انڈیا افغانستان اور ایران سے درآمد شدہ جانوروں کی وجہ سے اس بیماری کے و قوع پزیر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان تینوں ممالک بشمول ترکی میں میں کانگووائرس بہت زیادہ ہے۔

کانگووائرس کے پھیلنے کے ذرائع:

                        کانگو وائرس کا تعلق وائرس کے Binyaviridae خاندان سے ہے۔کانگو وائرس چیچڑی یا متاثرہ جانور / انسان کے خون سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ وائرس خون چوسنے والے چیچڑ Tick جن کو پشتو میں کونیئے کہتے ہیں، کے ذریعے ایک جانور سے دوسرے جانور تک پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر جب یہ جانور انسان کے رابطے میں آتاہے تو یہ مرض انسان کو بھی لگ جاتا ہے۔چیچڑ جانوروںکی جلد پر چمٹے رہتے ہیں اور اُن کا خون چوستے رہتے ہیں ۔ چیچڑوں کی 35اقسام میں صرف ایک قسم جس کا نام(ہائی لوما ) ہے، اُس کی بھی صرف مادہ میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے ۔

                        بھیڑ بکریاں اور مویشی جسم میں وائرس کی موجودگی کے باوجود اس بیماری سے متاثر نہیں ہوتی لیکن وہ یہ مرض انسانوں کو منتقل کرنے کا باعث بنتی ہے۔ابتدائی طور پر یہ وائرس جن پالتو جانوروں میں ہوتا ہے۔ ان میں گائے، بھینس ، بھیڑ بکری ،اونٹ  وغیر ہ شامل ہیں۔ ذبح خانے جہا ںبیمار جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ ان جگہوں پر کام کرنے والے قصابوں اور دوسرے کا رکنان کو بھی یہ خطرناک وائرس لگ سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر جانور ذبح کرنے والے افراد کے ہاتھ پر کوئی زخم ہو اس کے علاوہ متاثرہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنان اور جانوروں کا علاج معالجہ کرنے والے و یٹرنری ڈاکٹر اور پیراو ٹرنری سٹاف بھی اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کانگوبخارایک ایسامرض ہے جسکے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے صحت مندشخص کوفوری طورپرلگ جاتاہے۔یہ ایک متعدی /چھوت کی بیماری ہے جس میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔کانگو وائرس جانور سے انسانوں اورمتاثرہ انسان سے صحت مند انسان میں منتقل ہوجاتاہے۔طبی عملہ نے اگرحفاظتی لباس نہ پہناہوتومریض کاعلاج کرتے ہوئے یہ مرض لاحق ہوسکتاہے۔

                        اس کے علاوہ انسان سے انسان میں منتقلی کا ذریعہ خون کا انتقال ، پسینہ ، ناک کا پانی اور منہ سے نکلنے والا تھوک بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریض کے رشتہ دار سب سے پہلے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔مریض کی بیماری کے دوران ناک اور منہ کو ڈھانپے بغیر مریض کو کھانا کھلانا ،حتی کہ اس کے ساتھ بیٹھنا بھی خطرناک ہو سکتاہے۔ ہسپتال کا عملہ ان جراثیم سے بہت جلد متاثر ہو سکتاہے۔

کانگوبخارکی علامات: 

1)                 اچانک تیز بخار

2)                 پٹھوں، کمر اور سر میں شدید درد

3)                 جسم پر شدید نیل پڑنا اور جسم پر سُرخ رنگ کے نشانات اور دھبے

4 )                متلی اور قے

5)                 منہ اور ناک سے خون بہنا

                                                                        خون کے اس ضیاع سے جسم میں خون کے خلیے Platelet کی شدید کمی ہو جاتی ہے جسکے باعث خون جسم میں ٹھہر نہیں سکتا ۔ خون کےPlatelet خلیات کی کمی کانگو بخار کی خاص علامت تصور کی جاتی ہے۔اس طرح کے حالات میں مریض کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ مریض کے دل کی دھڑکن کمزور ہونے لگتی ہے اور بلڈ پریشر انتہائی کم ہو جاتا ہے۔آہستہ مریض غنودگی کی حالت میں چلا جاتا ہے اور آخر کار یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

اختیاطی تدابیر:

                        اب تک کانگو وائرس کی کوئی ویکسن ایجاد نہیں ہوئی ۔ اس لئے اختیاط برتیں یہ جان لیوا ہوسکتا ہے۔ جانوروں کے چیچڑوں سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیراپنائیں اورخودکوکانگووائرس سے بچائیں۔

  1. سب سے پہلے جانوروں کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کواگاہ کیاجائے۔جانورپالنے والے اورذبح خانوں میں کام کرنے والے افرادکام کے دوران جسم کومکمل ڈھانپنے  والے کپڑے پہنیں اوردستانے ضروراستعمال کریں۔
  2.               ذبح خانوں میں قصابوں کوچاہیے کہ وہ ضرورہاتھوں پرپلاسٹک کے دستانے پہنیںتاکہ ان جانوروں کے خون سے بچائو ہو سکے ۔قربانی کے وقت منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھانپ کر رکھے۔ جانورکو ذبح کرتے وقت دستانوں کا استعمال لازمی کریں۔ دستانیں اتارنے کے فوراََ بعد ہاتھ جراثیم کُش صابن(ڈیٹول،سیف گارڈ)سے دھوئیں۔ اگر اپ کے ہاتھوں اور دستانوں پر خون موجود ہے۔ تو اپنی ناک اور آنکھ کو چھونے اوررگڑنے سے اجتناب کریں۔

-3                 علاج کے دوران گھر والوں، تیمارداروں اور ڈاکٹرز کو سخت اختیاط کی ضرورت ہے۔ مریض کے پاس ہمیشہ ماسک اور گائون پہن کر جائیں۔مریض کو دستانے پہنے بغیر ہاتھ نہ لگائیں۔مریض کے استعمال کی چیزیں ضائع کر دیں۔انہیں جلادینا سب سے زیادہ بہتر ہو گا۔متاثرہ مریضوں کوفوری طورپرہسپتال میں داخل کروائیں اورعلیحدہ کمرے میں رکھیں۔

4-                 بچوں کوجانوروں سے کھیلنے سے روکیںاور مویشی منڈیوں میں بچوں کو تفریح کی غرض سے نہ لے جایا جائیں۔ 

5-                 عوام اوربیوپاری مویشی منڈیوں میں جاتے ہوئے ہلکے رنگ کے پورے آستنوں والے کپڑے پہنیں کیونکہ ہلکے کپڑوں پرچیچڑکی موجودگی آسانی سے نظرآجاتی ہے۔اور جوتے جرابوں کے ساتھ پہنے دافع حشرات دوائی (چیچڑ بھگانے والا لوشن )جسم کے کھلے حصوں پر لگائیں۔ گھر آنے کے فوراََ بعد اپنا جسم کا چیچڑیوں کیلئے معائنہ کریں اور فوراََ نہائیں۔

                        بلوچستان میں کانگوکے کیسزرپورٹ ہونے کے بعد عیدالاضحی پر  کانگووائرس کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر محکمہ لائیوسٹاک (توسیع)خیبرپختونخواہ دلجمعی سے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے نبردآزماہے۔اور کانگووائرس کی روک تھام کیلئے بھرپور حفاظتی اقدامات اُٹھائے ہے ۔ مویشی منڈیوں میں لائے جانے والے جانوروں کوچیچڑسے پاک کرنے کیلئے سپرے کیا جارہا ہے۔تمام اضلاع کے داخلی راستوں پرمحکمہ لائیوسٹاک کی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیجوجانوروں سے لدی تما م گاڑیوں کوروک کر مویشیوں پرسپرے کررہے ہیں تاکہ کسی بھی جانورپرچیچڑ پرورش نہ پاسکیں۔اس وقت محکمہ نے مختلف اضلاع میں شہرکے داخلی راستوں پر110 چیک پوسٹیں قائم کی ہیں اورمحکمہ کے 620 اہلکار جانوروں کوچیچڑسے پاک کرنے کیلئے مویشوں منڈیوں اورفارمزکے اندر ایمرجنسی بنیادوں پر سپرے کررہے ہیں۔

محکمہ کی 26 موبائل گاڑیاں بھی کانگو وائرس کی روک تھام کیلئے نبرآزماہے۔۔صوبائی وزیر زراعت ولائیوسٹاک جناب محب اللہ خان نے محکمہ کو عیدالضحی کے موقع پر کانگووائرس کی روک تھام کیلئے بروقت بھرپور اقدامات اُٹھانے کیلئے ہدایات جاری کردیئے ہیں ۔اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر زراعت ولائیوسٹاک جناب محب اللہ خان کی زیرصدارت پشاور میں ایک اعلٰی سطح اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں سیکٹری زراعت ولائیوسٹاک ڈاکٹر محمد اسرار خان ڈائریکٹر جنرل (توسیع) ڈاکٹر عالم زیب مہمند اور دیگر متعلقہ آفسران بھی موجود تھے ۔ صوبائی وزیر نے ضلعی آفسران سے مویشیوں کی بڑی بڑی منڈیوں کے بذات خود دورہ کرنے اور جانوروں پر کانگوں وائرس کے خاتمے کیلئے جراثیم کُش کے ادویات کے سپرے کرنے کے عمل کی خود نگرانی کرنے کیلئے ہدایات جاری کئے۔

 عوام الناس اگراپنی جانوروں کی جلدپرچیچڑدیکھ لیں تواس کوہرگزہاتھ نہ لگائیں اوراپنے قریبی شفاء خانہ حیوانات سے رابطہ کرکے ان کی ہدایات پرعمل کریں۔