دودھ میں ملاوٹ اور حکومتی اقدامات

از ڈاکٹر وقار علی گل ڈاکٹر وقار علی گل، لائیو سٹاک ایکسپرٹ، ریڈیو پاکستان لاہور

03234204801، drwaqaraligill@gmail.com

دودھ انسانی خوراک کا ایک اہم جزو ہے بلکہ بچوں کی بڑھوتری کے لیے خالص دودھ کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے ۔ ہماری روزمرہ کی غذائی ضروریات کی فراہمی میں دودھ کا کردار اہمیت کا حامل ہے ۔ صبح کی چائے ہو یا دوپہر کی لسی اور دہی پنیر مٹھائی اور گھی وغیرہ جیسی تمام پراڈکٹس دودھ کی ہی مرہون منت ہے ۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں گائے بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کے دودھ کو ہی ترجیحی بنیادوں پہ غذائی استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ اس مقصد کیلئے ان پالتو جانوروں کو بڑے بڑے فارموں کی صورت میں پالا جاتا ہے تاکہ انسانی غذائی ضروریات کو بطریق احسن پورا کیا جا سکے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ڈیری فارمنگ اور ڈیری انڈسٹری معاشی حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں نیز وہاں دودھ کے معیار کو برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے ۔
ترقی پزیر ممالک میں ڈیری انڈسٹری اور ڈیری فارمنگ ابھی توجہ طلب مراحل میں ہونے کی وجہ سے ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ اور اس کی اکثر پراڈکٹس یا تو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر ملاوٹ کر کے بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نا صرف انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ملکی معیشت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔
چونکہ دودھ ہر انسان کی پہلی خوراک ہے اس لیے دودھ کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں کا دودھ اسے وہ غذائیت دیتا ہے جو اس کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے ۔ پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے بھینس گائے اور بکری وغیرہ کا دودھ توانائی فراہم کرتا ہے اور اس کی بڑھوتری کے لیے کیلشیم اور فاسفورس سمیت دیگر اہم اجزاء دیتا ہے ۔


ہماری دیہی آبادی کی اکثریت اپنی ضرورت کے دودھ کی دستیابی کے لیے جانور پال لیتی ہے مگر شہری علاقوں میں ایسا کرنا بالعموم ممکن نہیں ہوتا اس لئے شیروں میں رہنے والے افراد دودھ کے لئے گوالوں پہ انحصار کرتے ہیں جو اکثر و پیشتر پانی ملا کر دودھ کی مقدار بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ گوالے تو ایسے مضر صحت کیمیائی مرکبات بھی شامل کرنے سے گریز نہیں کرتے جو انسانی صحت کو بری طرح سے متاثر کرتے ہیں ۔ یہ کیمیکل ملا دودھ جسم انسانی کے اندرونی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ متاثر ہونے والے اعضاء میں نظام انہضام اور نظام تنفس کی خرابیاں اور جگر و پھیپھڑوں کی بیماریاں سر فہرست ہیں ۔
ملاوٹ شدہ دودھ میں گھٹیا مواد بشمول خشک دودھ، چینی، میلامین ، فارملین، کاسٹک سوڈا، کپڑے دھونے والا پاؤڈر، بناسپتی گھی، امونیم سلفیٹ، نمک، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور دیگر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ اشیاء مصنوعی طور پر شامل کی جاتی ہیں۔
دودھ دوہنے والے تو دودھ میں پانی ملاتے ہی ہیں دیگر افراد جیسے دودھ اکھٹا کرنے والے، گھر گھر جاکر بیچنے والے اور دکانوں پر فروخت کرنے والے بھی اپنے تئیں اس میں پانی کی ملاوٹ کرتے ہیں۔
دودھ میں ملاوٹ کے سدباب کے لئے حکومتی سطح پہ بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اس سلسلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ صارف خود سے بھی دودھ کی ملاوٹ کا پتہ چلا سکتے ہیں اور ایسا کرنا ازحد ضروری بھی ہے۔ سب سے پہلے تو دودھ کے نمونے کسی قریبی لیبارٹری سے چیک کروائے جا سکتے ہیں اور اگر یہ سہولت قریب دستیاب نہ ہو تو دودھ کو ابال کر اسکا تجزیہ کیا جا سکتا ہے ۔ ابالتے وقت دودھ پر آنے والی بالائی اور نیچے بیٹھنے والے کیمیائی اجزاء سے ملاوٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ اکثر دکاندار حضرات دودھ سے کھویا بنا کر اس میں شامل پانی کی مقدار کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ زدہ دودھ پیچنے والوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اس سلسلے میں موقع پر دودھ کے ضروری کیمیکل ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ ملاوٹ ثابت ہونے پہ دودھ کو تلف کر دیا جاتا ہے اور ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والوں کو جرمانے کئے جاتے ہیں اور فوری تادیبی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔


گھروں میں سپلائی کئے جانے والے دودھ کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر ناکہ بندی کی جاتی ہے۔ شہری گھروں میں استعمال کئے جانے والے دودھ کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کے دفاتر اور موبائل لیبارٹریز سے بآسانی چیک کروا سکتے ہیں جبکہ ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والوں کی اطلاع فوڈ اتھارٹی کے رابطہ نمبر 1233 پہ دی جا سکتی ہے تاکہ ان کے خلاف بروقت کاروائی عمل میں لائی جا سکے۔