سردیوں میں گرم پانی کی تلاش میں مہمان پرندہ کا قتل عام

 تحریر : ایم آر ملک

تلور ، نسل مٹنے کا خطرہ

تلور ایک ایسا نایاب پرندہ ہے جسے انگلش میں (Houbara Bastard) کہا جاتا ہے۔ یہ کھلی زمین اور گھاس والے میدانوں میں پایا جاتا ہے۔ زمین پر گھونسلہ بناتا ہے ،اپنی مضبوط ٹانگوں اور بڑے پنجوں کی مدد سے یہ زمین پر آسانی سے چل سکتا ہے ، ہماخوروں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے ،اس کے پروں پر اضافی پر ہوتے ہیں جو اس پرندے کو بلندی پر اُڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں ۔

بحیرہ عرب سے گزرتا ہے ۔دوران سفر بیسیوں ممالک آتے ہیںاس کی اڑان چونکہ بہت اونچی ہوتی ہے سو یہ ابتدا میں وہاں نہیں اُترتا۔بلوچستان کے راستے یہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔اوتھل ،لسبیلہ،سبی وغیرہ 15مقامات میں یہ قیام کرتا ہے ۔فروری تک یہ پرندہ پنجاب اور سندھ میں رہتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے،دنیامیں یہ پرندہ سات روٹس پر سفر کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ ’’روٹ نمبر چار‘‘ اپنے لیئے مختص کرتا ہے۔ بلوچستان خیبر پختونخوا کے بنجراور صحرائی علاقوں میں قیام کرنا پسند کرتا ہے۔خیبر پختونخوا میں میرن شاہ ،بنوں ،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بسیرا کرتا ہے۔

مادہ تین سے پانچ انڈے دیتی ہے جن پر دھبے ہوتے ہیں ۔مادہ اکیلے ہی ان انڈوں کو سیتی ہے اس کا گوشت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کلو سے کم نہیں ملتا۔ ایک اندازے کے مطابق اس نایاب پرندے کی تعدا د 33 سے67ہزار کے درمیان ہے اور اگلے 20برسوں میں یہ تعداد 49فیصد کم ہوجائے گی ۔

پاکستان میں اس پرندے کی تعداد کے اوپر کوئی سروے نہیں ہوسکا تاہم ایک اندازے کے مطابق ہر برس 8 ہزار سے 12 ہزار پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں ۔غیر محفوظ صورت حال کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کیلئے اس کا شکار ممنوع ہے لیکن پاکستان معمول کے مطابق شہزادوں کو شکار کیلئے نہ صرف خصوصی انتظام کرتا ہے بلکہ ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے ۔ پاکستان میں اس نایاب پرندہ کے شکار کیلئے چار ایریاز مخصوص کئے گئے ہیں جہاں رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے افراد شکار کی غرض سے آتے ہیں ۔ پہلا علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان ،بھکر ،دریا خان ،منکیرہ ،خوشاب ،نور پور تھل ،لیہ ،خصوصاً چوبارہ کا صحرائی علاقہ اور مظفر گڑھ کا رنگ پور کا ایریا شامل ہے جبکہ تھل کا علاقہ عرب شہزادوں کی ایک پرکشش شکار گاہ ہے۔ سرحد کا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ،پنجاب کے اضلاع ضلع خوشاب ،ضلع بھکر ،ضلع لیہ ،ضلع مظفر گڑھ ایریا نمبر 1میں شامل ہیں۔ ایریا نمبر 2میں ڈیرہ غازی خان ،راجن پور ،لیاقت پور کا علاقہ شامل ہے۔ ایریا نمبر 3میں چولستان کا وسیع و عریض صحرا بہاول پور ،رحیم یار خان ،صادق آباد ،خان پور ،دراوڑ کوٹ ،یزمان کے علاقہ جات ہیں ایریا نمبر چار سکھر سے مغرب کی طرف جس میں بلوچستان کا علاقہ قلات ،سبی ،جیکب آباد (سندھ )کے علاقہ جات شامل ہیں جہا ں شکار کی غرض سے کیمپ لگا دیتے ہیں۔ایک مرتبہ ایک شکاری قافلے میں ایک ایسا فرد بھی شامل تھا جو منی لانڈرنگ میں بھی ملوث تھا ۔ سابقہ دور حکومت میں جب قطری خط کی بازگشت زبان زد عام تھی ،قطری شہزادے محمد بن خلیفہ نے ضلع بھکر کے ْقصبہ ماہنی تھل میں اپنی خیمہ بستی لگائی جس میں ان کے خاندان کے دس افراد بھی شامل تھے۔ ان شہزادوں نے 14روز قیام کیا تھا۔

شکار کا موسم عموماً اس وقت ہوتا ہے جب تھل کے کسان اپنی چنا کی فصل کاشت کرچکے ہوتے ہیں ۔یہ عرب شہزادے مقامی طور پر اثرورسوخ رکھنے والے افراد کے ساتھ تعلق جوڑتے ہیں ان کے ایما پر فصلات میں جب گاڑیا ں دوڑاتے ہیں تو میلوں رقبہ پر کھڑی چنے کی فصل تباہ ہوجاتی ہے جس سے مقامی زمینداروں کو معاشی طور پر تباہ حالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

2016میں سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی لیکن اسی برس وہ پابندی ختم کردی گئی

2018میں لاہور ہائیکورٹ میں ایک شہری نے تلور کے غیر قانونی شکار پر پابندی لگانے کیلئے درخواست گزاری جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے ایک کمیشن تشکیل دیا اور اس پابندی کوکمیشن کی تحقیق اور فیصلے سے مشروط کر دیا۔ ایک حکم یہ صادر کیا کہ تلور اور دوسرے نایاب پرندوں کا سروے کرکے دیا جائے تاہم جب کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے تو لاہور ہائیکورٹ نے یہ پابندی اٹھا لی مگر سروے آج تک نہیں ہوسکا ۔

اسی برس ہی نئے اصول وضع کئے گئے جس کے مطابق 10روز کے دوران 100 پرندوں کے شکار کی اجازت دی گئی ہے جس کیلئے 1لاکھ ڈالر صوبائی محکمہ وائلڈ لائف کو ادا کرنا ہوں گے جبکہ 100تلور کے شکار کے مقررہ ہدف سے تجاوز کی صورت میں مزید ایک لاکھ ڈالر اداکرنا لازمی ہوں گے ۔ قبل ازیں شکار کی کوئی حد موجود نہ تھی۔ ماضی کے مقابلے میں یہ ایک خاطر خواہ پیش رفت ہے جسے تلور کے شکار کے خلاف آواز اٹھانے والی سماجی تنظیموںنے کسی حد تک قابل اصلاح قرار دیا ہے۔ 

اس نایاب پرندے کا شکار کرنے کی دو وجوہات بھی سامنے آئی ہیں۔ عقابوں سے ان کی محبت ایک وجہ ہے جن سے وہ تلور کا شکار کرتے ہیں اس سلسلہ میں ایک مثال دینا ضروری ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک جہاز سے محکمہ وائلڈ لائف نے تین غیر قانونی عقاب پکڑے جن کو بغیر دستاویزات کے غیر قانونی طور پر تلور کے شکار کیلئے پاکستان لایا گیا تھا،ان میں دو جرمن اور ایک امریکی نسل کا تھا۔یہ بات اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اس پرندے کے شکار پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کا کیافائدہ ؟یہ پرندہ تو بصد شوق انتہائی کم رقم کے بدلے زندہ یا مردہ ان کے ممالک میں بھی پہنچایا جاسکتا ہے ؟پھر شکاری یہاں کیوںآتے ہیں ؟ خلیجی ممالک کے سربراہان اس پرندے کو نسل کشی سے بچانے کیلئے اپنے ممالک میں تلور کے عدم تحفظ کی آگاہی مہم چلارہے ہیں یہاں تک کہ خلیجی ممالک میں تعلیمی اداروں میں بچوں تک کو اس پرندے کی اہمیت کے بارے میں لیکچر دیئے جاتے ہیں ۔وہ اپنے ممالک میں غیر محفوظ انواع کی حفاظت کر رہے ہیں لیکن پاکستان اس نایاب پرندے کی حفاظت کے لئے کام نہیں کر رہا۔

سائبریا کے یخ بستہ صحرائوں سے زندگی کی بقا کی خاطر ہجرت کرنے والے ایک خوبصورت اور مخصوص پرندے ’’تلور ‘‘کو وطن عزیز میں بھی زندگی کا تحفظ نہیں اور نہ ہی عالمی تنظیمیں جو پرندوں کے تحفظ کیلئے دنیا بھر میںکام کر رہی ہیں ۔