پاکستان پرندوں اور ہجرت کرنے والے پرندوں کا قتل گاہ

فاریسٹ وائلڈ لائف فشریز پاکستان- ایف ڈبلیو ایف

#کونجوں_اور_ماٸیگریشن_کرنے_والے_پرندوں_کی_فلاٸی_مقتل_گاہ_پاکستان

کونجوں کی یہ قسم عمومی طور پر چین اور منگولیا سے اڑتی ہے اور 16000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ہمالیہ عبور کر کے گجرات اور راجستھان اور کچھ انڈس فاٸی روٹ کے ذريعے پاکستان اور انڈيا پہنچ جاتی ہے جہاں انہیں سردیاں گزارنی ہوتی ہیں۔

کھیچن نامی گاؤں راجستھان کے تھر صحرا میں ہے۔ جو کہ پاکستان کے صحرا سے ملتا ھے کچھ برس پہلے کونجوں کی ایک ڈار راستہ بھول کر اس گاؤں میں اتر آئی جہاں نہ کچھ کھانے کو تھا، نہ پینے کو۔ کچھ دیر بعد باقی پرندے پرواز کر گئے لیکن ایک حواس باختہ جوڑا پیچھے ہی رہ گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے انہیں شکار کرنے کے بجائے انہیں اپنا مہمان سمجھ کر کچھ بیج کھلانا چاہے مگر ان کے لیے بیج ہضم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد وہاں مقیم بشونی قبیلے کے لوگوں نے ایسی خوراک ڈھونڈی جو یہ کونجوں کا جوڑا کھا سکتا تھا۔ ساری سردیاں اس جوڑے کی خاطر داری ہوتی رہی اور یہ گاؤں کا ایک حصہ بن گیا۔ سردیوں کے بعد یہ جوڑا بھی واپس پرواز کر گیا۔

سوچیے اس جوڑے نے باقی کونجوں کو کیا پیغام پہنچایا ہو گا کہ اگلے سال کونجوں کی ایک بڑی ڈار نے گاؤں سے آگے پرواز نہیں کی بلکہ یہیں اتر آئے۔ اس دن سے اب تک ہر سال یہاں تیس سے چالیس ہزار کونجیں اترتی ہیں ۔ گاؤں کے لوگ پورا سال ان کے لیے اناج اکٹھا کرتے ہیں۔ اب یہ گاؤں کا ہی ایک خاندان ہیں جو سردیاں اپنے اس نئے گھر میں گزار کر محبت لیے واپس لوٹ جاتا ہے۔

یاد رہے کہ کچھ دہائیاں پہلے تک ایسی ہی کونجیں اور مرغابیاں پاکستان کی کتنی ہی جھیلوں پر اترتی تھیں پر ہم نے اس وحشت ناکی سے ان کا شکار کیا کہ اب یہ ادھر کا رخ نہیں کرتیں۔ پرندے محبت یاد رکھتے ہیں تو قتل، وحشت اور بربریت کیسے بھول جائیں۔ اب بھی جو چند بھولے بھٹکے پرندے یہاں اتر آتے ہیں تو ہم ان کو مار کر جیپوں کے ہڈ پر سجا کر ان کی لاشیں مشتہر کرتے ہیں ۔ شکار میں کونسی بہادری یاکمال ہے،

کاش ہم محبت کا سرحد پار سے آیا یہ سبق اپنے لوگوں کو بھی پڑھا سکیں، سکھا سکیں۔ اسی طرح انڈس فلائی وے بھی مختلف قسم کے پرندوں کی گزرگاہ ہے. اور جی بی کے باسی ان مسافروں کے مشہور قاتل ہیں اور محکمہ تحفظ جنگلی حیات سب سے بڑا سہولت کار