تحریر: ڈاکٹر مجاہد حسین DVM،RVMP ویٹرنری آفیسرمحکمہ جنگلی حیات و پارکس پنجاب
کیا آپ یہ ماننے کی ہمت کریں گے کہ کسی جانور کی قے (vomit) کروڑوں روپے میں فروخت ہو سکتی ہے؟ جی ہاں، یہ ہو سکتا ہے اگر یہ قے سپرم وھیل
Physeter macrocephalus
کی ہو تو۔سپرم وھیل کی قے سے ہی عنبر (ambergris) حاصل ہوتا ہے جو سونے سے بھی مہنگاہوتا ہے۔سپرم وھیل دنیا میں دانتوں والا سب سے بڑا جاندار ہے۔یہ233dbکی ارتعاش پیدا کرنے کی وجہ سے دنیا کا سب سے پرشور (loudest)جانور بھی ہے۔سپرم وھیل کو اِس کے قوی ہیکل (enormous) چوکور نما سر اور تنگ نچلے جبڑے کی بدولت آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔اِس کا دماغ دنیا میںآئے آج تک کے جانوروں میں سب سے بڑا ہے۔ سپرم وھیل کا قد49تا59فٹ لمبا ہوتا ہے،یعنی ایک بڑے ہاتھی سے پانچ گنا زیادہ، اوروزن35تا45ٹن ہوتا ہے۔ اس وھیل کو یہ نام اِس کے سر میں موجود ایک خاص ساخت،جسے سپرمیسیٹی (spermaceti)کہتے ہیں، کی وجہ سے ملا ہے۔ سپرمیسیٹی تقریباََدوہزارلیٹر والی ایک روغن(oil)کی تھیلی ہے جوایک نظریہ کے مطابق سپرم وھیل کو صوتی اشاروں(sound signals)پر توجہ مرکوز رکھنے اور اُچھال بدلنے میں مدد کرتی ہے تا کہ وھیل گہرا غوطہ لگا کر (90منٹ تک سانس روک کر تقریباََ 3280فٹ کا غوطہ لگا سکتی ہے) واپس آ سکے البتہ سائنسدان اِس کے عمل کو ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے۔ یہ روغن ٹھنڈا کرنے پر مومی(waxy) کیفیت حاصل کر لیتاہے جسے مرہم،زیبائشی چیزوں (cosmetics)،موم بتیوں اورمختلف صنعتوں وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔پرانے وقتوں میںسپرمیسیٹی کو وھیل کا سپرم(sperm)سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میںپہلی بار سپرم وھیل کاجوڑا بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل کے پانیوںمیں 12ستمبر2017کو دیکھا گیا۔پانی میں اِس کی رفتار 23میل فی گھنٹہ ہے۔اِس کا گروہ (15تا20جانور)podکہلاتا ہے۔ ایک سپرم وھیل ایک دن میں ایک ٹن قیر ماہی(squid)اور مچھلیاں کھاتی ہے۔ہڈیوں ،تیل اور عنبر کے لیے اس کا شکار کیا جاتا ہے البتہ1970کے Endangered Species Act کے تحت سپرم وھیل کا شمار Endangeredجانوروں میں ہوتا ہے اور اسی لیے اِس کے شکار اور تجارت پر پابندی عائد ہے۔ IUCNکی فہرست میں اسے vulnerableکا درجہ حاصل ہے۔
عنبر ایک ٹھوس سفیدی/سرمئی/سیاہی مائل چربیلا مادہ ہے۔عنبر کا بننا صدیوں سے مظاہر قدرت کا ایک عجوبہ رہا ہے۔سپرم وھیل کی دریافت سے پہلے عنبر کے بارے میں بہت سی من گھڑت کہانیاںعام تھیں۔ابنِ بطوطہ اور مارکوپولو نے بھی اپنے سفر ناموں میں عنبر کا ذکر کیا ہے۔جب سپرم وھیل کسی کٹل فش (cuttlefish)یا آکٹوپس (octopus)وغیرہ جیسے سمندری جانور کو نگلتی ہے تووھیل کا نظامِ انہظام شکار کے نوکیلے کانٹوں اور دانتوں سے جسم کو بچانے کی خاطر ایک خاص رطوبت بناتا ہے جسے بعد میں ناپسندیدگی کی وجہ سے قے کر کے(ایک نظریہ کے مطابق فضلہ کے ذریعے) جسم سے باہر خارج کر دیا جاتا ہے(ایک نظریہ کے مطابق یہ وھیل کی آنتوں میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور کئی سال کی کیمیائی تبدیلیوں کے بعد جسامت میں بڑا ہو تے ہوتے ایک دن بڑی آنت کو پھاڑ کر وھیل کو موت کے دہانے لا کرجسم سے باہر نکل آتا ہے)۔یہ قے شدہ مادہ سمندر کی سطح پر تیرتا ہوئے سورج کی روشنی اور سمندری نمک کی موجودگی میںتکسید(oxidation) کے عمل سے گزر کر عنبر میں بدل جاتا ہے (تحقیق زیر بحث ہے) اورتیرتے تیرتے گول یا بیضوی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسے سمندری سونا (sea gold)بھی کہا جاتا ہے۔محققین کے مطابق ابتداءمیں عنبر بدبودار ہوتا ہے لیکن ہوا سے خشک ہو کر ایک میٹھی خوشبو پا لیتا ہے۔یہ آتش گیر(flammable) ہوتا ہے۔عنبر کو ساحل تک پہنچنے میں مہینوں یا برسوں کا عرصہ لگتا ہے۔کتے عنبر کی خوشبو کی طرف راغب ہوتے ہیں لہٰذاساحل پرتربیت یافتہ کتوں کی مدد سے اسے تلاش کیا جاتا ہے ۔عنبر جتنا پرانا اور بڑا ہو گا اُتنی اِس کی قیمت زیادہ ہو گی۔عنبر سے عنبرین( ایک بے بوالکوحل)نکالا جاتا ہے جو عطر کی خوشبو کو دیرپا بنانے کے کام آتا ہے۔عنبر کی درجہ بندی اِس کے رنگ کی بنیاد پربھی کی جاتی ہے؛سب سے قیمتی عنبر سفیدی مائل جبکہ سب سے گراں بہا عنبر سیاہی مائل ہوتا ہے کیونکہ اِس سے سب سے کم عنبرین نکلتی ہے۔ دنیا میں عنبر کا استعمال شکر کی چاشنی اور دیگر جڑی بوٹیوں میں ملا کر جسمانی، ذہنی، اعصابی اور جنسی دوائیوں میں ہوتا ہے( کوئی سائنسی شواہد نہیں ہیں)۔ عرب ممالک میں اِس سے اعلیٰ درجہ کا عطر تیار کیا جاتا ہے۔بین الاقوامی مارکیٹ میں عنبر کی قیمت ایک سے ڈیڑھ کروڑروپے فی کلو تک ہو سکتی ہے۔چونکہ لوگ نہیں جانتے کہ عنبر کیا ہوتا ہے لہٰذا اِس کی فروخت میں کچھ لوگ دھوکہ دہی کرتے ہیں لیکن اُس کی شکایت نہیں ہوتی کیونکہ یہ کاروبار غیر قانونی ہے (مختلف ممالک میں مختلف قانون ہیں)۔ البتہ CITESعنبر کو سپرم وھیل کافضلا گردانتا ہے اور سمندر یا ساحل سے اِس کو اکٹھا کرنے کو قانونی قرار دیتا ہے۔