551884796119198

پاکستان فیڈ انڈسٹری کا ماضی، حال اور مستقبل کا ایک جامع تجزیہ

مصنف ڈاکٹر شاہد وحید (پی ایچ ڈی)،

ترجمہ: محمد عاطف نسیم

 ایگزیکٹو ایڈیٹر اور مارکیٹنگ اور بزنس ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز

2004-05 میں برڈ فلو کے بحران کے فوراً بعد، فیڈ انڈسٹری نے 2006 کے بعد ایک ترقی پسند سفر کا آغاز کیا۔

 یہ وہ وقت تھا جب نسبتاً بہتر معاشی منظر نامہ پولٹری کی توسیع کے حق میں تھا۔ بینکوں نے تاجروں کو کم سے کم مارک اپ کے قرضوں کی سہولت فراہم کیں- پولٹری کے بڑے گروپس جیسے ایس بی گروپ، اسلام آباد گروپ، ہائی ٹیک گروپ، صابرگروپ، اور بگ برڈ گروپ نے بریڈر فارمز میں اضافہ کیا، اور آخر کار، زیادہ گھریلو بریڈر فیڈ کی پیداوار کی ضرورت تھی۔ چوزوں کی مقدار میں اضافے کا نتیجہ بالآخر ایک بہت بڑی برائلر مارکیٹ کی صورت میں نکلا۔ بڑی فارمنگ کے لیے مزید فیڈ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، جس کو پورا کرنے کے لئے نیشنل فیڈ، ایشیا فیڈ، ہائی ٹیک گروپ، اسلام آباد گروپ، ایس بی (صادق گروپ)، شہزورگروپ (صابر)، پنجاب فیڈ ، اور لاہور (اولمپیا) گروپ جیسی فیڈ ملزسے فیڈ کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ان میں سے ہر ایک گروپ نے تجارتی فیڈ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنے فیڈ یونٹس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا۔ اس طرح مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ساتھ "فیڈ کی فروخت میں اضافہ” ہوا، فیڈز انڈسٹری میں نسبتاً بہتر منافع کے مارجن نے نئے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کیا اور اس انڈسٹری میں مزید سرمایہ کاری شروع ہوگئی۔ جدید فیڈ جیسے بڑے فیڈ یونٹوں نے اس دوران اپنا کاروبار شروع کیا۔

Charoen Pokphand Group گروپ کا لاہور میں آغاز ایک سنگ میل تھا جو اعلیٰ معیار کی خوراک کے لیے ایک رجحان ساز ثابت ہوا۔ مکئی سویابین کی اعلی کثافت والی خوراک کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے برائلر مارکیٹ (35 دن) میں 1.5 FCR کے نئے معیارات مرتب کردیے۔  جبکہ اس وقت موجودہ فیڈز میں 1.7 – 1.8 FCR (40-45 دن) تھے۔

تمام فیڈ کمپنیوں کو نئے "مقابلے” کے اس خلا کو پُر کرنا تھا اور پوری صنعت اس FCR کے لیے مکئی ، سویابین پر مبنی غذا استعمال شروع کردیا گیا۔ برائلر فارمنگ کے لئے سویا بین ایک نیا فیول ثابت ہوا اور اس کے نتیجے میں سویا بین کا انڈسری میں زیادہ استعمال شروع ہوگیا ہوا۔ جسکہ نتیجتاً نکلا کہ ملک میں سویا بین کے بیچ درآمد کے ساتھ ساتھ ملک میں تیل نکالنے کے مزید پلانٹس لگے۔ تاکہ سویا میل جوفیڈ انڈسٹری میں استعمال ہورا کتا کی ملکی سطح پر اس کی فراہمی شروع ہوگئی. تمام  بڑی فیڈ گروپوں نے oil extraction شعبہ میں بھی سرمایہ کاری شروع کردی جس سے فیڈ انڈسٹری کو کم لاگت میں بہتر نام مال کی فراہمی شروع ہوگئی جس کے نتیجہ میں خاص طور پر برائلر فارمنگ میں بہتری آئی.

The future of poultry nutrition: 1:1 feed conversions by 2025?

پنجاب میں ملتان کے علاقہ میں بھی فیڈ ملز کےکاروبار میں سرمایہ کاری کا آغاد ہوا،

 شبیر فیڈز، محمود گروپ، سن کراپ گروپ، اور خواجہ فیڈز، بالائی پنجاب میں ایس ایس فیڈز اور سلوا گروپ نے فیڈ مل کا کاروبار شروع کیا۔

شریف فیڈز، مختار فیڈز، فیصل فیڈز، اور چوہدری فیڈز نے مارکیٹ میں اچھے کاروبار کا آغاز کیا اور بہت سے دوسرے چھوٹے پیمانے پر فارم کے مالکان ،فیڈ  تقسیم کاروں اور دیگر تاجروں نے اپنی کمرشل فیڈ کا  کاروبارشروع کردیا۔

اس تمام مقابلے کے نتیجے میں خوراک کا معیار ماہرین اور پیشہ ور افراد کی مدد سے بہتر بنیا.

سندھ کے علاقے میں عام برائلر فارمنگ عروج پر تھی مگر اب پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی کنٹرول شیڈ کے کاروبار نے اوپن ہاؤس فارمنگ کی جگہ تیزی سے رہی ہے .

2011-2017 کے دوران فیڈ کے کاروبار کا بہترین ترقی کا دورتھا۔  فیڈ کی پیداوار اور فروخت کے معاملے میں بہت زیادہ توسیع ہوئی۔ منافع کا معقول مارجن اور مکئی اور سویا بین کی کم شرح قیمت نے صنعت کو سہارا دیا۔

کشمیر، کریسنٹ، شمیم، ہمالیہ، کوالٹی، اور JSK جیسی درمیانے درجے کی ملوں کی مسلسل پیداواری حیثیت نے مشرق فیڈ، سلطان فیڈز، اعوان فیڈز، فارمر ایگرو، اور IFFCO فیڈز جیسی نئی ملیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ نئی فیڈ ملوں نے اسی مارکیٹ سے مزید اجزا کی خریداری شروع کر دی اور مارکیٹ میں فیڈ کی فروخت اور معیار کا مقابلہ شروع کر دیا۔

فیڈ کی صنعت میں بغیرمنصوبہ بندی کی ترقی نے برائلر مارکیٹ کی بہت زیادہ متاثر کیا، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں، فیڈ ملز ملکان اور فارم ملکان کے درمیان ایک معاشی کشیدگی میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا.  ایک واضح تلخ حقیقت ۔

 2018-19 کے دوران مکئی اور سویا بین میل کی بڑھتی ہوئے قیمت نے پیداواری لاگت میں مزید اضافہ کیا۔ کچھ فیڈ یونٹ اس صورتحال سے بچ نہیں سکے اور پولٹری فیڈ کا کاروبار بند کر دیا۔ غنی ہلال فیڈ ، اوکے فیڈ، خواجہ فیڈ، کیپیٹل فیڈ، قصوا فیڈ، اور خوشحال فیڈز کی کچھ مثالیں ہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب ہر مشہور فیڈ یونٹ نے فیڈ کے کاروبار کے لیے دوسری منڈی تلاش کرنے کے لیے کیٹل فیڈ (وانڈا) شروع کیا۔ نیشنل گروپ، ہائی ٹیک  گروپ، اور سندھ فیڈز نے حال ہی میں ایکوا (مچھلی) فیڈ شروع ہونے کے بعد کامیابی کے ساتھ ایک بہتر مارکیٹ حاصل کی۔

covid-19 (2019-20) کے دوران، فیڈ انڈسٹری کوناقابل تلافی نقصان ہوا بلکہ اس کا اثر دیگر صنعتوں کی بھی پہنچا۔ 2021-22 میں، ایندھن میں اضافہ، ڈالر کی شرح تبادلہ، درآمد اور ٹیکس کی پالیسی، اور افراط زر نےفیڈ میں استعمال ہونے والے اجزاء کی قیمتوں کو متاثر کیا۔ مزید برآں، لیبر، مشینری، نقل و حمل، بجلی، اور فیول چارجز بڑھ گئے،  جس کے نتیجے میں فیڈ کی قیمتیں ہر دوسرے مہینے اضافہ ہوتا گیا ۔

 درآمد شدہ امینو ایسڈ اور وٹامن منرل کی قیمتوں کے اثرات نے فیڈ کی پیداوار کی لاگت کو مزید بڑھا دیا۔ یوکرین-روس جنگ کے بعد، 2022 میں، اجزاء خام مال کی بین الاقوامی سپلائی میں کمی اور اس سے سویا بین، کینولا اور سورج مکھی کی قیمت میں اضافہ بھی ایک وجہ تھی۔ بین الاقوامی منڈی تیل کے بیجوں کی عدم دستیابی فیڈ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کی وجہ بن رہی تھی۔

اکتوبر 2022 میں، فیڈ سیکٹر کو سویا بین کی کمی کا سب سے زیادہ متاثر کن چیلنج بن کر سامنا آئی۔

سویا بین کے بہت سے جہازوں کو کراچی کی بندرگاہ پر اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ سرکاری حکام (منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن) نے کہا کہ جی ایم او (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ آرگنزم) سویا بین کی اجازت نہیں ہے۔

اس معاملے پر طویل بحث سے قطع نظر، پاکستان نے 2015 کے بعد سے ایسی سویابین کی درآمد کی شروع کردی گئی تھی اور درآمد کنندگان فوراً بند شدہ سویابین سے پریشان تھے۔

مارکیٹ میں سویابین میل کی عدم دستیابی وجہ سے فیڈ انڈسٹری متبادل خام مال جیسے مچھلی کا میل، کینولا میل، ریپسیڈ، گوار، سورج مکھی اور کارن گلوٹین کی طرف منتقل ہو گئی اور بالآخر ان میں سے ہر ایک کی قیمت ایک ماہ کے اندر دگنی ہو گئی۔ امینو ایسڈ کی طلب میں 2-4 گنا اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں قیمت 3-4 گنا بڑھ گئی۔

فی الحال، فروری 2023 میں، سویا بین کے کچھ بحری جہاز آف لوڈ ہوئے ہیں، جو مارکیٹ کی طلب کو پورا نہیں کر سکتے۔

 سویا بین کی موجودہ شرح طلب، اکتوبر 2022 کی  شرح طلب سے دوگنی ہوگی ہے۔

اس کے علاوہ بینک لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھولے رہے اور امینو ایسڈ اور دوسرے فیڈ اجزاء کی مارکیٹ میں شدید کمی فیڈ  صنعت کو مزید متاثر کر کر رہی ہے.

اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کئےتو فیڈ انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچایا نہیں جاسکتا-

آئیے چند سطروں میں فیڈ انڈسٹری کے موجودہ منظر نامے کا خلاصہ کرتے ہیں۔

1- بندرگاہ پر سویا بین کی رکاوٹ سے فیڈ انڈسٹری کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ جس کا کوئی مستقل حال ہونا چاہئیے.

2- سویا بین کی کمی کے بعد FCR میں اضافہ جوکہ (1.5 سے کم ہو کر  1.8 تک ہوگئی ہے)۔ اگر مستقبل میں سویا بین مکمل طور پر دستیاب نہ ہو توFCR  2.2 تک پہنچ سکتی ہے جس سے برائلر کا کاروبار مکمل خسارے کا شکار ہو سکتا ہے۔

3-  فیڈ انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں کمی کے لئے بغیر سود کی پالیسی، اور متبادل اجزاء کے طور پر مچھلی کے گوشت کی بہتر دستیابی بہت ضروری ہے.

4- انڈے کے کاروبار کو منافع بخش کاروبار بنانے کے لیے ایک طویل المدتی پروگرام بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

5- پیداواری لاگت زیادہ ہونےوجہ سے برائلر مارکیٹ میں %40 کی کمی ہوئی (فیڈ ان پٹ سب سے مہنگا ہے) جس کے لئے ایک جامہ پروگرام مرتب کیا جائے تاکہ فوری طور پر اس کمی کو کنڑول کیا جاسکے.

 6- اگر حکومت کی GMO کے بیجوں پر پابندی کی پالیسی مستقبل میں جاری رہی، فیڈ انڈسٹری اور پولٹری کے کاروبار کو ناقابل تلفی نقصان ہوسکتا ہے۔

 7- امائنو ایسڈ اور ادویات کی درآمد میں درپیش مشکلات اور تاخیر سے فیڈ انڈسری کو یقیناً بہت بڑا نقصان ہوگا۔

8- پولٹری کے کاروبار کی بنیادی اکائی ” فارمر” اگر کاروبار جاری نہیں رکھ سکے گا تو ملک میں خوراک کی کی کمی کےساتھ ساتھ انتہائی قیمتیں (کمی ہوئی کوالٹی کے ساتھ) میں بھی دستاب نہیں ہوگئی.

9-  خام اجزاء جو فیڈز انڈسٹری میں استعمال ہوتے ہیں کی برآمدات پر فوری پابندی اور جو ملک میں پیدا نہیں ہوتے ان پر  درآمدات پر پابندی ختم کرنی چائیے تاکہ فیڈز انڈسٹری کی مکمل تباہی ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جاسکے.

10- حکمران، انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز،  قومی ادارے اور تمام ایسوسی ایشنز کومل کر ایک جامع طویل مدتی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے.

 

Leave a Reply

%d bloggers like this: