بجٹ میں پولٹری انڈسٹری پر مزید ٹیکس عائد کرنے کے اعلان سے موجودہ صنعت بھی تباہ ہو جائے گئی-
ڈاکٹر رانا سجاد ارشد، سینئر نائب صدر، فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف سی سی آئی) اور سابق چیئرمین، پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے اپنے حالیہ انٹرویو میں پاکستان کی پولٹری انڈسٹری کو درپیش متعدد چیلنجز اور ان کے ممکنہ حل پر تفصیل سے بات کی۔
محمد عاطف نسیم- ایگزیکٹو ایڈیٹر- ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز اور ڈاکٹر محمد حسن (ویٹ کنیکٹ) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت برائلر فارمز فی ہاؤس سات ملین روپے سے دس ملین روپے تک کا نقصان کررہے ہیں، جس کی وجہ سے کئی لوگ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اوراب حکومت کی جانب سے نئے بجٹ میں مزید ٹیکس کا بوجھ پولٹری انڈسٹری پر ڈالنے کے اعلان سے بچی کھچی انڈسٹری بھی تباہ ہو جائے گی۔
انہوں نے حکومت کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت فوری کارروائی کرنے کے لئےمختلف اقدامات کرتی ہے، جبکہ حکومت کو قیمتیں بڑھنے کے وجوہات پر غور کرنا چاہیے. مگرحکومت منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوئے, فارمرز کو مزید نقصان پہنچ رہی ہے.
ڈاکٹر ارشد نے پاکستانی پولٹری کو بین الاقوامی معیار پر لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس میں کوالٹی اور پرائس دونوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ چند کمپنیاں پہلے ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہیں، لیکن اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت پرائس کنٹرول کے بجائے کوالٹی کنٹرول پر توجہ دے – ڈاکٹر رانا سجاد ارشد
ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کے استعمال کو بڑھانے اور ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ دوسرے ممالک جیسے سعودی عرب نے اپنی پروڈکشن کی ضروریات کو ڈیٹا کی مدد سے منصوبہ بندی کی ہے۔ پولٹری مصنوعات کی مارکیٹنگ میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ فارمرز کو بہتر قیمت مل سکے اور پروڈکٹ صارفین تک سستے داموں پہنچے۔
ڈاکٹر رانا سجاد ارشد نے تجویز دی کہ حکومت کو قیمتوں کے کنٹرول کے بجائے کوالٹی کنٹرول پر توجہ دینی چاہیے۔ پالیسیوں کو مستحکم کرنا اور سبسڈی کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے، اور انڈسٹری کو مکمل ڈیٹا فراہم کرنے کے لئے ایسوسی ایشنز کا فعال کردار اہم ہے۔ اگر ان اقدامات پر عمل کیا جائے تو پاکستان کی پولٹری انڈسٹری مستقبل میں بہتری کی طرف گامزن ہو سکتی ہے، جس سے نہ صرف انڈسٹری بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔
انٹرویو کے اختتام میں، ڈاکٹر ارشد نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے اس انڈسٹری کی مدد کے لیے اقدامات نہیں کیے تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پروٹین کی قلت، قیمتوں میں اضافہ اور ملازمتوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔