چڑیا گھروں کو عالمی معیار کی تفریح گاہیں بنانے کا مستحسن اقدام

تحریر : مرزا محمد رمضان
پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے نئی تفریح گاہوں کے قیام اور موجودہ تفریح گاہوں کو عالمی معیار کے مطابق ازسر نو تعمیر کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے. جس کے پیش نظر حکومت پنجاب صوبہ میں عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ عالمی طرز پر وائلڈ لائف پارکس اور چڑیا گھر بنانے کی راہ پر عملی طور پر گامزن ہوچکی ہے. جسکا بین ثبوت پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن رضا نقوی کے گزشتہ دنوں اس بابت اعلان اور اب باقاعدہ ان منصوبوں کی منظوری سے آشکار ہوچکاہے ۔
بلاشبہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے یہ اقدامات نہ محض صوبہ میں بلکہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا سبب بنیں گے جو ان کی ذاتی دلچسپی کے پیش نظر انتہائی سرعت سے عملی صورت میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
عوام کیلئے یہ امر انتہائی خوش آئند تھا کہ جب انہیں ملکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے چڑیا گھر لاہور اور سفاری زو لاہور کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کی باقاعدہ منظوری دیدی ہے اور انہوں نے یہ منظوری ایک انتہائی اعلیٰ سطحی خصوصی اجلاس میں دی. جسمیں چیف سیکرٹری ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ، چیئر مین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، سیکرٹری جنگلات، سیکرٹری خزانہ ، سیکرٹری مواصلات و تعمیرات اور ڈائریکٹر جنرل وائلڈ لائف اینڈ پارکس پنجاب اور دیگر متعلقہ سرکاری حکام موجود تھے.
چڑیا گھروں کو جدید طرز پر عالمی معیار کے مطابق بنانے کا بنیادی مقصد سیاحوں کو بہترین تفریحی سہولیات مہیا کرنا ہے، تاکہ ہمارے پارکس اور چڑیا گھر سیاحوں کیلئے پرکشش بن سکیں ، چڑیا گھر وں کے ان دو ترقیاتی منصوبوں میں ایک منصوبہ ”ریویمپنگ آف لاہور زو “ہے.
جس کیلئے 2136ملین (02ارب 13 کروڑ 60 لاکھ روپے )جبکہ دوسرا منصوبہ” امپلمنٹیشن آف ماسٹر پلان آف سفاری زو لاہور "ہے جس کیلئے 2600ملین (02ارب 60 کروڑ روپے) مختص کئے جاچکے ہیں.
دونوں منصوبوں کی مدت تکمیل 30جون 2024 ہے منصوبوں کے نمایاں خدوخال کچھ اس طرح ہیں، منظور شدہ منصوبوںکی تفصیل کے مطابق لاہور چڑیا گھر لاہور میں35 مختلف دیسی وبدیسی نادر و نایاب انواع کے جنگلی جانور، پرندے اور خزندے خریدے جائیں گے. جن میں پانڈا ، گینڈا ، دریائی گھوڑا ، زرافہ ، افریقن پینگوئن، بلیک جیگوار، اوریکس ، پوما ، اُود بلاﺅ ، سندھ آئی بیکس ، چلتن مارخور ، اڈیکس ، نیولا ، بندر ، فیزنتس ، مور ، طوطے ، سانپ اور چھپکلیاں وغیرہ شامل ہیں۔
علاوہ ازیں لاہور چڑیا گھر میںسیاحوں ، شائقین جنگلی حیات اور تشنگان علم و تحقیق کیلئے عالمی طرز کی واک تھرو ایوری ، بندر انکلوژرز، واک تھرو شیر اور ٹائیگر انکلوژرز تعمیر کئے جائیں گے، جبکہ سفاری زو لاہور کیلئے11مختلف انواع کے دیسی و بدیسی مزید نئے جنگلی جانور ہاتھی ، گینڈا ،زرافہ ، بلیک جیگوار ، اوریکس، اڈیکس ، زیبرا ، اڑیال ، شتر مرغ ، نیل گائے اور چیتل ہرن وغیرہ خریدے جائیں گے نیز سفاری زو میں افریقن سفاری، ڈیزرٹ سفاری اور سالٹ رینج بنائی جائیگی اور سیاحوں کو یہاں نائٹ سفاری کی سہولت بھی میسر ہو گی۔
142اقسام کی آبی حیات کیلئے یہاں شاندار ایکوریم بھی تعمیر کیا جائیگا اور لاہور کے ان دونوں چڑیا گھروں میں سیاحوں کو ای ٹکٹنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائیگی ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 25ایکڑ پر محیط لاہور چڑیا گھر ڈیڑھ سو برس قدیمی چڑیا گھر ہے جو 1872میں قائم ہوا تاہم اندرو ن شہر ہونیکی وجہ سے اسکے رقبہ کو مزید وسعت نہ دی جاسکی تاہم مختلف ادوار میں اسکی ہیت تر کیبی تبدیل ہوتی رہی اور ہر عہدمیں اسے اسوقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجاتی رہی ہے۔ عین اسی طرح سفاری زو رائیونڈ روڈ لاہور جو کہ تقریباََ اڑھائی سو ایکڑ رقبے پر محیط ہے.
2001 میں پایہ تکمیل کو پہنچا یہاں بھی مختلف ادوار میں بتدریج ترقی و ترویج کا عمل جاری رہالیکن موجودہ منصوبہ سفاری زو نہ صرف پاکستانی عوام کیلئے پر کشش ہوگا بلکہ دیگر دنیا کے سیاحوں کو بھی اپنی طرف راغب کرے گالہٰذا اب کی باران چڑیا گھروں کی عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈیشن انتہائی قابل ستائش عمل ہے جس کا کریڈٹ بہر صورت موجودہ نگران وزیراعلیٰ محسن رضا نقوی، نگران وزیر جنگلات بلال افضل ، سیکرٹری جنگلات ، جنگلی حیات و ماہی پروری پنجاب مدثر وحید ملک اور ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات و پارکس پنجاب مبین الٰہی اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے کہ جنکی شبانہ روز کوششوں سے یہ منصوبہ جات سرعت انگیزی سے منظوری کے مرحلے پر پہنچے اور اب محض ان کی تکمیل کا مرحلہ باقی ہے جس کیلئے مذکورہ دونوں چڑیا گھروں کی انتظامیہ بھرپور انداز سے سرگرم عمل ہو چکی ہے اور اس عزم اور امید کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ ان منصوبوں کو مقررہ مدت کے اندر انتہائی شفاف انداز سے مکمل کرکے ملکی سیاحت کو فروغ دیا جائےگا تاکہ صوبہ کے عوام اور سیاح معیاری اورسستی تفریحی سہولیات سے بھر پور استفادہ کر سکیںجس سے پاکستان میں ٹورازم کو فروغ حاصل ہو اور محکمہ کے زیر انتظام پہلے سے جاری ان سیچو کنزرویشن میں مزید دیسی و بدیسی نادر ونایاب جنگلی حیات کی انواع میںافزائش نسل کی صورت میں اضافہ اور سیاحوں کو یہاں دیکھنے کیلئے کثیر ورائٹی دستیاب ہو۔