تحریر و ترتیب: ڈاکٹر دین محمد مہمند سینئر ریسرچ آفیسر، مسٹر مجاہد بائیوکیمسٹ سنٹر آف اینیمل نیوٹریشن، لائیو سٹاک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ خیبر پختونخواہ پشاور
انسانوں میں اینٹی بائیو ٹک (Antibiotics) ادویات کیخلاف جراثیمی مزاحمت (Antimicrobial Resistance) کی روک تھام میں Veterinarians کا کردار
تحریر و ترتیب: ڈاکٹر دین محمد مہمند سینئر ریسرچ آفیسر، مسٹر مجاہد بائیوکیمسٹ سنٹر آف اینیمل نیوٹریشن، لائیو سٹاک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ خیبر پختونخواہ پشاور
Antimicrobial Resistance (AMR) کا مطلب اینٹی بائیو ٹکس اور دیگر اینٹی مائیکروبیئل ادویات کا اثر کم ہونا اور ان ادویات کا بیماری کے خلاف موثر کام نہ کرنا ہے۔ اینٹی مائیکروبیئل ریزسٹنس وقوع پذیر ہوتا ہے جب خوردبینی جراثیم (مثلاً بیکٹیریا، وائرس، فنجائی اور پیراسائٹس) ارتقاء پذیر ہو کر دوائی کے خلاف مزاحمت ظاہر کرتے ہیں۔ اینٹی بائیو ٹکس ادویات کا غلط استعمال ہم سب کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس جان بچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں مگر اس کا بے دریغ اور بے جا استعمال دوا کے اثر کومتاثر کرکے روک دیتا ہے۔ جب اینٹی بائیو ٹکس ادویات کا مسلسل، بے جا اور بے دریغ استعمال کیا جائے تو ان کے اثرات کم اور سست ہونے لگتے ہیں‘ جس کی وجہ سے بیماری کا علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیکٹیریا کا اپنا اندرونی Intelligence کا نظام ہوتا ہے جو دوائی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اپنے آپ کو تبدیل کرکے اس دوائی کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے۔
اینٹی بائیو ٹکس کیخلاف مزاحمت ایک بڑا عالمی صحت کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف بڑتھی ہوئی مزاحمت ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2019میں داوائیوں کے خلاف جراثیم کی مزاحمت کی وجہ سے 12 لاکھ اموات واقع ہوئیں جو 2050 میں ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہیں۔
اینٹی مائیکروبیئل ریزسٹنس (AMR) اور لائیوسٹاک
پاکستان لائیوسٹاک کے حوالے سے دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جانوروں کے علاج معالجہ میں ان اینٹی بائیو ٹکس کا بے دریغ اور بے تحاشہ استعمال نہ صرف بیماریوں کے خلاف ان ادویات کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے بلکہ یہ اینٹی بائیو ٹکس دودھ اور گوشت کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہو کر دوائیوں کیخلاف مزاحمت کے مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایسی زمین جہاں پر جانوروں کا گوبر قدرتی کھاد کے طور پراستعمال کی جاتی ہے وہاں گوبر میں شامل اینٹی بائیوٹک زمین میں شامل ہو کر فصلوں کے ذریعے انسان میں منتقل ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں پولٹری میںantibiotics کا بے تحاشہ استعمال ہو رہا ہے۔ WHO کی مرتب کردہ سات از حد شدید اہمیت کی حامل انٹی بائیوٹکس پولٹری میں بکثرت استعمال ہو رہی ہیں۔ ان میں کو لیسٹین، ٹائیلوسین، اریتھرومائسین، انروفلاکساسین ، نارفلاکساسین، نیومائسین اوراسٹرپٹومائسین شامل ہیں۔ Colistin جو انسانوں میں Multi Drug Resistant بیماریوں میں آخری آپشن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ تاہم تشویش ناک امر ہے کہ یہ Ccolistin مرغیوں میں E. Coli بیکٹیریا کے خلاف استعمال ہونے والی عامAantibiotic ہے۔ یہ کولیسٹین گوشت اور انڈوں کے ذریعے منتقل ہو کر انسانوں میں Ccolistin کے خلاف مزاحمت کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ مرغیوں میں دوائی بھی پلائی جا رہی ہے اور ساتھ تیار مرغیوں کو مارکیٹ میں سپلائی بھی کیا جا رہا ہے۔ جانوروں کے علاج معالجہ میں استعمال ہونے والی کئی اینٹی بائیوٹکس WHO کی مرتب کردہ اس لسٹ میں شامل ہیں جو انسان کے لئے شدید نوعیت کی اہمیت رکھتی ہیں .
انسانی ادویات کے لیے انتہائی اہم اینٹی بائیوٹکس:
دودھ، گوشت اور انڈوں میں antibiotics کی باقیات کی موجودگی سے الرجک ردعمل کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ پنسیلین گروپ کی انٹی بائیوٹک سے الرجک (حساس) ہوتے ہیں۔ اب اگر انسان ایسا گوشت یا دودھ استعمال کرے جس میں جانوروں کو علاج کے لئے پنسیلین دی گئی ہو تو اس دوائی کے باقیات دودھ وغیرہ میں موجود ہوں گے جو اس الرجک انسان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دودھ، انڈوں اور گوشت میں antibiotics کے باقیات انسان کے نظام انہضام میں موجود نارمل microflora کو متاثر کرتا ہے۔ گردے متاثر ہوتے ہیں اور حاملہ عورتوں کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
جانوروں اور مرغیوں میں وزن بڑھانے اور بیماریوں کی روک تھام کے لئے خوراک میں بھی اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں میں بیماریوں کے علاج کے علاوہ انٹی بائیوٹکس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ جانوروں میں وزن بڑھانے کیلئے اینٹی بائیوٹک کی بجائے پروبائیوٹک اور yeast کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے صحت مند جانوروں میں وزن بڑھانے اور بیماریوں کی روک تھام کے لئے اینٹی بائیوٹک کا استعمال روکنے اور کم کرنے کی سفارش کی ہے۔WHO کے مطابق مختلف ممالک میں استعمال ہونے والے اینٹی بائیوٹک کا 80 فیصد حصہ جانوروں میں استعمال کیا جاتاہے جو زیادہ تر صحت مند جانوروں اور مرغیوں میں وزن بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانوں میں شدید نوعیت کی بیماری پیدا کرنے والے بیکٹریا پہلے ہی انٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں۔بہت سے ممالک نے انسانوں کیلئے خوراک مہیا کرنے والے جانوروں میں انٹی بائیوٹکس کے استعمال کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں مثلاً یورپی یونین نے 2006 سے وزن بڑھانے کے لئے جانوروں میں antibiotics کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ صارفین میں ایسے گوشت کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے باقیات سے پاک ہو۔ امریکہ کے FDA ادارے نے ایسی89 اینٹی بائیوٹکس کی لسٹ مرتب کی ہے جو جانوروں کی خوراک میں شامل کی جاتی ہے اور یہ ادویات انسان کے لئے بھی اہم ہیں۔
اینٹی بائیو ٹکس کے خلاف مزاحمت کا حل:
1۔ مرغیوں میں وزن بڑھانے کے لئے خوراک کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال باقاعدگی سے جاری ہے۔ فیلڈ میں زیادہ تر عطائی ڈاکٹر جانوروں کے علاج معالجہ میں مصروف عمل ہیں۔ علاوہ ازیں،مارکیٹ میں غیر رجسٹرڈ اور غیر معیاری ادویات کی بھی بھرمار ہے چونکہ مرغیوں کی بہتر نشوونما اور بیماریوں کے ممکنہ حملے سے بچانے کے لئے پیشگی اقدامات کے طور پر ان کی خوراک میں اینٹی بائیوٹک گروتھ پروموٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ان کے گوشت اور انڈوں میں مضر اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس لئے گزشتہ کچھ سالوں سے پولٹری میں پروبائیوٹکس کا استعمال کافی زیادہ ہو گیا ہے۔
2۔ علاوہ ازیں، اینٹی بائیوٹک گروتھ پروموٹرز کے زیادہ استعمال کی وجہ سے سودمند مائیکروفلورا کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس وجہ سے اینٹی بائیوٹکس کی بجائے پروبائیوٹکس کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جوکہ مرغیوں کی خوراک ہضم کرنے اور اچھی کارکردگی دکھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس عمل کو روکنے کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے اور دیگر متبادل طریقوں کا استعمال کرنا چاہئے۔ پاکستان میں منہ کھربیماری اور جانوروں سے حاصل شدہ گوشت میں antibiotics کی باقیات کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
3۔ اگر کسی جانور کو علاج کیلئے وٹرنری ڈاکٹر کوئی اینٹی بائیوٹک تجویز کرتا ہے تو عوام الناس کو یہ بات ذہن نشین کرنا چاہئے کہ اینٹی بائیوٹک کا ایک withdrawal period ہوتا ہے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ایسے جانور جسے علاج کیلئے اینٹی بائیوٹک دوائی دی جائے ، توایک مخصوص وقت کے لئے اس کا دودھ اور گوشت استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان دنوں کے دوران یہ ادویات دودھ، گوشت اور انڈوں میں موجود رہتی ہیں۔ مرغیوں کو مارکیٹ میں سپلائی کرنے سے چند دن پہلے اینٹی بائیوٹک کا استعما ل روک دینا چاہئے۔
4۔ ہر اینٹی بائیوٹک دوائی کا دودھ، گوشت اور انڈے کے لئے ایک مخصوص withdrawal time ہوتا ہے۔فیلڈ میں کام کرنے والے معالجین کو مویشی پال/ فارمرحضرات کو اس مخصوص وقت کے بارے میں بتانا اخلاقی ذمہ داری ہے۔عوام الناس کو بھی چاہئے کہ جب ان کے جانوروں کو علاج کیلئے انٹی بائیوٹک دوائی دی جا رہی ہو تو وہ ان جانوروں کا دودھ وغیرہ کا استعمال چند دنوں کے لئے ترک کردیں۔ اس دورانیہ کے بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
5۔ . مندرجہ ذیل جدول میں بازار میں دستیاب عام اینٹی بائیوٹک کی period withdraw خلاصہ کیا گیا ہے۔
پنجاب اینیمل فیڈ اسٹف اینڈ کمپاؤنڈ فیڈ ایکٹ، 2016: کے تحت وزن بڑھانے کے لئے antibiotics کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے۔ پاکستان نے WHO کے گلوبل ایکشن پلان کے تحت 2017 میں اپنا قومی ایکشن پلان مرتب کیا ہے جو ون ہیلتھ ( One Health) کے زیر قیادت کام کر ے گا۔
6۔ علاوہ ازیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘کے مقولے کے مطابق بیماریوں کی روک تھام کے لئے معیاری ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ لائیوسٹاک میں اینٹی بائیوٹک کے استعمال کی نوبت/ ضرورت سے بچنے کے لئے جانوروں کی بروقت شیڈول کے مطابق ویکسی نیشن، بیماری کے اوائیل مراحل میں تشخیص اور جانوروں کی سائنسی اصولوں کے مطابق خوراک اور دیکھ بال شامل ہیں ان عوامل سے جانوروں میں بیماری کے واقعات کم ہوں گی تو ادویات کے استعمال کی نوبت کم آئے گی۔ کسان حضرات بایو سیکیوریٹی کے نظام کو مضبوظ کرکے بیماری کے وقوع پزیری کے خدشات کو کم کرکے ان ادویات کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر متبادل ذرائع جیسے نباتاتی ادویات اور phages کے استعمال کو بڑھانا چاہئے۔
7۔ اینٹی بائیوٹک استعمال کرنے کی بجائے دیگر متبادل زرائع کے استعمال پر غور کرنا چاہئے مثلا الیکٹرولائٹ تھراپی (Electrolyte therapy) اور علامات کے مطابق علاج مثلاً سوزش میں کمی لانے والیanti-Inflammatory ادویات کا استعمال۔
8۔ جانوروں کے ڈاکٹروں کو بیکٹیریل، وائرل اورفنگل انفیکشنز (fungal infection) میں تفریق کرنا چاہئے، بیماری کی درست تشخیص بہت لازمی ہے کوشش کرنی چاہئے کہ لیبارٹری کے زریعے بیماری کی تشخیص کریں اور Antibiotic Sensitivity Test کے بعد antibiotic استعمال کرنا چاہئے۔
9۔ جانوروں کے ڈاکٹروں کو دائمی اور بڑھے ہوئے غیر جوابی طبی معاملات (Non-Responsive Clinical Case) میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
10۔ ویٹرنری ڈاکٹرکو چاہئے کہ جانوروں کا علاج کرتے وقت antibiotic کی درست مقدار اور مناسب دورانیے کے مطابق تجویز کریں۔
اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہیلتھ کے شعبہ کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ جانوروں کے علاج کیلئے تعلیم یافتہ ڈی وی ایم ڈگری ہولڈرسے مشورہ کریں۔
پاکستان میں antibiotics کے خلاف مزاحمت روکنے کے قومی ایکشن پلان کے تحت جانوروں میں علاج کے علاوہ دیگر مقاصد کیلئے انٹی بائیوٹکس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ One Healthکے نظریہ کو پروان چڑھانا ہوگاجس میں تمام سٹیک ہولڈرز، عالمی ادارہ صحت (WHO)اور WDAH اس مسئلے کے دیرپا حل کیلئے سفارشات مرتب کرکے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔