ہر سال یہ ہفتہ (18 – 24 نومبر) عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اینٹی بائیوٹکس اور antibiotic resistance کی آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے،
تجزیہ : ڈاکٹر شاہد وحید (اینمل نیوٹریشن سپیشلسٹ)
ہمارے ہاں استعمال ہونے والی ایک عام اینٹی بائیوٹک "اگمینٹن” (Augmentin) جو میری نظر میں میڈیکل سائنس کا ایک خوبصورت "جگاڑ” ہے۔
اگمینٹن کی گولی میں "amoxicillin” نام کی اینٹی بائیوٹک ہوتی ہے، اور سب اینٹی بائیوٹکس کی طرح یہ بھی بیکٹیریال انفیکشن کو ختم کرتی ہے۔ amoxicillin کا تعلق اینٹی بائیوٹکس کے سب سے بڑے گروپ "beta-lactam antibiotics” سے ہے۔ یہ ساری اینٹی بائیوٹکس بیکٹریا کی سیل وال پر حملہ کرکے بیکٹیریا کو ختم کرتی ہیں۔
لیکن بیکٹیریا بھی بڑا چالاک ہے، اس نے اتنی ساری اینٹی بائیوٹکس کا ایک ہی علاج نکالا۔ کچھ بیکٹیریا ایسا انزائم (beta-lactamase) بنانے لگ گئے جو ان اینٹی بائیوٹکس کو ناکارہ کر دیتا ہے۔ یعنی جو اینٹی بائیوٹک بیکٹیریا کو "توڑنے” آئیں، بیکٹیریا نے انہیں ہی "توڑ” دیا۔
یہاں پر آتا ہے ہمارا "جگاڑ”۔ ہم نے بیکٹیریا کے اس انزائم کو پکڑا اور کچھ ایسے کیمکلز لے کر آئے جو اس انزائم کو ناکارہ کردے۔ ایسا ہی ایک کیمکل "clavulanic acid” ہے۔ جو بیکٹیریا کے اینٹی بائیوٹک ناکارہ کرنے والے انزئم کو ہی ناکارہ کر دیتا ہے۔
تو ہم نے اپنی amoxicillin کو اس clavulanic acid کے ساتھ ملا دیا اور یوں بن گئی ہماری اگمینٹن !!! یعنی پہلے ہم نے بیکٹیریا کو ختم کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک بنائی، تو بیکٹیریا نے اس کے جواب میں انزائم بنا لیا تو ہم نے اس کا بندوبست بھی کرلیا۔ اسی طرح ہمارے پاس مختلف اینٹی بائیوٹکس اور کیمکلز کی جوڑیاں اور دو مختلف اینٹی بائیوٹکس کے کمبینیشن موجود ہیں .
لیکن کیا اس طرح ہم بیکٹیریا سے جیت گئے؟ وقتی طور پر تو ہاں لیکن لگتا ہے بیکٹیریا پھر سے بازی بدل دے گا، بلکہ ایسے بیکٹیریا بھی موجود ہیں جو تقریباً سب اینٹی بائیوٹکس کو فیل کر چکے ہیں۔
یہ "antibiotic resistance” کی جنگ ہے، جس میں بیکٹیریا ایک عرصے کے بعد ایک اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتا ہے
ہر سال (18 – 24 نومبر) عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اینٹی بائیوٹکس اور antibiotic resistance کی آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے، تو آپ بھی دیکھیں کہ کہیں آپ غیر ضروری اور غلط طریقے سے اینٹی بائیوٹکس تو استعمال نہیں کر رہے۔۔۔