یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کے چند پروفیسرز کی جانب سے تازہ دودھ کے معیار کے حوالے سے ایک سروے جاری کیا گیا ہے۔ اس سروے کے مطابق مارکیٹ میں بکنے والا 92 فیصد دودھ غیر معیاری ہے۔ یونیورسٹی نے پاکستان بھر کیلئے یہ نتائج گیارہ شہروں سے 1200 کے قریب لئے گئے سیمپل کی بنیاد پر اخذ کئے ہیں۔ اس تحقیق کو کسی سائنسی جریدے میں شائع کروانے کے برعکس پہلے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ ایک بڑی تقریب میں اس کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ اس کے لئے میڈیا کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جس کے بعد بڑے اخبارات اور چینلز نے ان نتائج کو شائع کیا جبکہ اس پر وی لاگ بھی کئے گئے۔ دوسری جانب ایک مخصوص سوشل میڈیا پیج، جو اس سے پہلے بھی تازہ دودھ کے خلاف منظم مہم کا حصہ رہا ہے، اس پر بھی اس سروے کی تشہیر کی گئی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے کے روایتی زرعی سائیکل میں لائیواسٹاک کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان میں اسی فیصد سے زائد چھوٹے فارمرز ہیں جوزراعت کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر دودھ کی فروخت سے اپنے گھر کا باورچی خانہ چلاتے ہیں۔ یہ چھوٹے لائیواسٹاک فارمرز جانوروں کی دیکھ بھال کر کے پوری قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے فارمرز پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور دیہی معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی بنیاد ہیں۔ انہی فارمرز کی بقا کیلئے یہ ویٹرنری یونیورسٹی قائم کی گئی تھی اور آج یہی یونیورسٹی فارمرز دشمن کھیل کا حصہ بن کر انتہائی ڈھٹائی سے ان پروفیسروں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
گزشتہ تین سالوں سے تازہ دودھ مخالف فارمر دشمن قوتیں انتہائی منظم انداز سے پاکستان کے ڈیری سیکٹر اور چھوٹے فارمرکو تباہ کرنے کی مہم پر ہیں۔ اس کے لئے ایک طرف بڑی مقدارمیں خشک دودھ کے نام پر وھے پاوڈر اور اسکمڈ ملک پاوڈر منگوا کر فارمرز کا استحصال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب تازہ دودھ کے خلاف منظم مہم چلائی جاتی ہے۔ پیمرا کی جانب سے نیشنل ٹی وی چینلز پر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور مختلف اینکرز کے ذریعے تازہ دوھ کے خلاف چلنے والی اشتہاری مہم پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بادی النظر میں شاید انہی قوتوں کی جانب سے اب یونیورسٹی کے پروفیسروں کے کندھے استعمال کئے گئے ہیں۔ان سب کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو منفی مارکیٹنگ کے حربوں سے تازہ دودھ کی مارکیٹ کو ختم کر کے اس کی جگہ لینا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے فارمرز کو کچلنے سے بھی گریز نہیں کر رہیں۔
یہ نام نہاد سروے فارمرز کو تباہ کرنے کی سازش کے ساتھ ساتھ پاکستان کے متعلقہ اداروں کو بدنام کرنے کا بھی ایک گھناؤنا منصوبہ ہے۔ اگر اتنی بڑی مقدار میں دودھ غیر معیاری ہے تو پھر لائیوسٹاک کے ادارے اور فوڈ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں۔ یہ سروے ان اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اگر ا س طرح کے مفادات کے ٹکراؤ اور متعصبانہ سروے اور ریسرچ کی اجازت دی جانے لگی تو ہر کوئی اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لئے یونیورسٹیوں کا استعمال کرنے لگے گا۔ اس روش پر چلنے سے پاکستان کی یونیورسٹیوں کی کوئی ساکھ نہیں رہی گے۔
آپ سے گزارش ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ اس سروے کے پیچھے کون ہے؟اس سرو ے کیلئے فنڈنگ کس نے کی؟کیا اس سروے کے لئے کسی انتظامی ادارے نے یونیورسٹی کو کہا؟ کیا اس سروے کے لئے کسی انتظامی ادارے سے اجازت لی گئی؟ اس سروے کے نتائج کو میڈیا کے سامنے پیش کرنے کا انتظام کس نے کیا؟اس سروے سے متعلقہ تقریب کے انعقاد کے لئے فنڈنگ کس نے کی؟اس سروے کے نتائج کو کون اپنے فائدے کے لئے استعمال کر رہا ہے؟ اس سروے کیلئے ایک مخصوص پروڈکٹ کو ہی کیوں چنا کیا گیا؟ اگر ایسی رپورٹ آئی تھی تو کسانوں اور دودھ فروشوں میں موجود خرابی یا بیماری کا علاج کرنے کی بجائے اس رپورٹ کی نیشنل میڈیا پر تشہیر کیوں کی گئی؟
آپ سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے سخت کارروائی کی جائے اور اس میں ملوث پروفیسروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی یونیورسٹی اس طرح سے استعمال نہ ہو۔
عین نوازش ہوگی۔
خیراندیش؛ شاکر عمر گجر
صدر
ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان
رابطہ نمبر ؛ 03008281786
کاپی برائے اطلاع۔
چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ