از قلم : پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد خاں، ڈاکٹر فہد رشید اورپروفیسر ڈاکٹر محمد احسن خاں
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے. ہماری زمینیں پہاڑوں سے لائی ہوئی زرخیز مٹی سے بنی ہیں. ہمارا نہری نظام دنیا کے طویل ترین نظاموں میں سے ایک ہے. ہمارے ملک کے موسمی حالات زراعت کے لئے انتہائی موزوں ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں. اس کے باوجود ہمارے ہاں خوراک کی کمی کا مسئلہ نہ صرف ہمیشہ کی طرح حل طلب ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے. اگر زراعت سے منسلک مختلف مسائل کا احاطہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زررساں کیڑوں سے کھیتوں میں کھڑی فصلوں اور گوداموں میں محفوظ کی گئی خوراک کو پہنچنے والا نقصان اس سلسلے کی اہم کڑی ہے. لامحالہ اس نقصان کو کم کرکے ہی ہم کسی حد تک خوراک کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں. اگر موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری فصلوں کو نقصان دہ کیڑوں سے بچانے والا مروجہ نظام ہی فرسودہ اور قطعی طور پر درست نہ ہے. جسے جدید تحقیق کی بنا پر مناسب تبدیلیاں لاتے ہوئے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں فصلوں کے نقصان دہ کیڑوں کو زہروں کا چھڑکاؤ کرکے مارنے کا طریقہ بہت مقبول ہے اور زہریں بھی انتہائی زہریلی ہونے کے ساتھ لمبے عرصے تک موثر رہنے والی استعمال کی جاتی ہیں۔ نا سمجھ اور ان پڑھ کسانوں کے ہاتھوں اس قسم کی جان لیوازہروں کاپھلوں ، سبزیوں اور فصلوں پر استعمال بہت خطر ناک ہے۔ کیونکہ اکثر کسان زہریں استعمال کرتے وقت احتیاطی تدابیر پر پوری طرح سے عمل نہیں کرتے۔
اگر ایسے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے زہر کی پوری خوراک انسانی جسم میں چلی جائے تو وہ مر جاتا ہے لیکن اگروہی زہر بہت کم مقدار میں ان کھانے والی اشیا کے ساتھ انسانی جسم میں پہنچ جائے تو یک دم موت واقع نہیں ہوتی بلکہ سخت بیماری لاحق ہونے سے علاج کرواتے ہوئےوہ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
اس لیے زہروں کے استعمال میں کمی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ انسانی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ایک انگریز مصنف اے۔ ڈی۔ ایمز اپنی کتاب "جنرل ٹیکسٹ بُک آف انٹومالوجی” میں لکھتے ہیں کہ زہروں کے ذریعے نقصان دہ کیڑوں کو کنٹرول کرنے سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ مقامی موسمی حالات علاقے میں پائے جانے والے ان حشرات کی افزائش پر کس طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں?
ہمارے حالات میں یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سردیوں کا موسم آنے پر ہماری فصلوں کو نقصان پہنچانے والے 90 فیصد کیڑے شدید سردی کے زیر اثر خود ہی مر جاتے ہیں۔لیکن مرنے سے پہلے یہ حشرات اپنے انڈوں اور پیوپوں کی کثیر تعداد کھیتوں میں پائی جانے والی مخصوص جگہوں پر محفوظ طریقے سے جمع کر جاتے ہیں۔ اب سردیاں گزرنے کے بعد موسم بہار میں فضائی درجہ حرارت ایک خاص حد تک بڑھتے ہی ان انڈوں سے لاروے نکل آتے ہیں اور پیو پے جوان کیڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں. عام طور پر یہ نیا جنم لینے والے کیڑے چند دن اسی جگہ سستاتے ہیں اور پھر نزدیکی فصلوں کا رخ کرکے ان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں. ہمارے پلانٹ پروٹکشن سپیشلسٹ کہتے ہیں کہ "فصلوں کے ان نقصان دہ کیڑوں کا تدارک اُس وقت کیا جائے جب ان سے فصل کو پہنچنے والا نقصان زیادہ جبکہ زہروں کے ذریعے ان کو کنٹرول کرنے پر خرچہ کم آئے”. یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے زر رساں کیڑوں کی تعداد کو بلاروک ٹوک بڑھنے دیا جائے اور جب وہ تعداد بڑھنے سے فصل کا زیادہ نقصان کرنا شروع کر دیں تو پھر انہیں زہریں استعمال کرتے ہوئے کنٹرول کیا جائے جو کہ حقیقت کے برعکس, نقصان دہ اور غیر موزوں طریقہ ہے۔
ایک ماہر زراعت ہونے کے ناطے میں زر رساں کیڑوں کے اس مروجہ طریقہ انسداد کو غلط اور خلاف اصول سمجھتا ہوں. موجودہ حالات کے پیش نظر ماہرین حشریات کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ فصل کے ان نقصان دہ کیڑوں سے متعلق مندرجہ ذیل عوامل پر تحقیق کرکے یہ بتائیں کہ
1.نقصان دہ کیڑے انڈوں اور پیوپوں کی شکل میں کڑی سردیوں کا موسم زرعی زمینوں میں کن کن مخصوص جگہوں یا کون کون کی فصل کی باقیات پر گزارتے ہیں؟
2.شدید سردیوں کا موسم گزرنے کے بعد کس مخصوص فضائی درجہ حرارت (تھرمل کونسٹنٹ) پر ان کے انڈوں سے لاروے اور پیوپوں سے جوان کیڑے جنم لیتے ہیں؟
یہ بات تو عام فہم ہے کہ نقصان دہ کیڑے سردیوں میں شدید سردی کے زیر اثر مرجاتے ہیں لیکن مرنے سے پہلے آئندہ آنے والی نئی نسل تیار کرنے کی خاطر اپنے انڈے اور پیو پے کھیتوں کی وٹوں،جھاڑیوں، درخت کے تنوں، بے آباد جگہوں اور خاص طور پر فصل کی باقیات پر جمع کرکے خاص طریقوں سے محفوظ کر جاتے ہیں۔اب سردیوں کا موسم گزرنے کے بعد وہ مخصوص درجہ حرارت(تھرمل کونسٹنٹ) جس پر ان انڈوں سے لاروے اور پیوپوں سے جوان کیڑے جنم لیتے ہیں کھیتوں اور لیبارٹریوں میں بیک وقت تحقیق کرکے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ سردیاں گزرنے کے بعد فضائی درجہ حرارت 16 ڈگری ہوجانے پر ان انڈوں سے بچے نکل آئے ہیں اور پیوپے جوان کیڑوں کی شکل اختیار کرچُکے ہیں. دوسرے الفاظ میں یہ نیا جنم لینے والے کیڑے "مدر سٹاک” کی شکل میں ہماری فصلوں کے باہر اوپر درج کی گئی ان مخصوص جگہوں پر موجود ہیں اور ہماری فصل پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار ہیں۔لامحالہ یہی وہ بہترین وقت ہے جب ہم انہیں فصل پر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اُن مخصوص جگہوں پر زہروں کا چھٹرکاو کرتے ہوئے ختم کر کے اپنی فصلوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔درج شدہ اس طریقہ کار سے فصلوں کے زررساںکیڑوں کو کنٹرول کرنا ہمارے لئے انتہائی آسان اور کم خرچ ہو جاتا ہے۔
اگر ہم زہروں کے استعمال میں کمی لاتے ہوئے اپنی فصلوں کو نقصان دہ کیڑوں کے حملوں سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ سردیوں کا موسم گزرتے ہی جب فرض کیا گیا فضائی درجہ حرارت 16 ڈگری (یہ فرض کردہ فضائی درجہ حرارت ہر علاقے کی مخصوص صورت حال کے مطابق بھرپور طریقے سے حقیقی انداز میں ریسرچ کرکے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور یہ درجہ حرارت علاقے کی مناسبت سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے) تک پہنچ جائے تو ریڈیو اور ٹی وی پر اعلانات کیے جائیں کہ ہر زمیندار اپنے کھیتوں کے اندر موجود ان مخصوص جگہوں پر جہاں نقصان دہ کیڑوں نے اپنے انڈے پیوپے سردیاں گزارنے کے لئے جمع کیے تھے وہا ں بھرپورطریقے سے سپرے کر دیں تاکہ نیا جنم لینے والے یہ کیڑے فصل پر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ ایسا کرنے سے زہروں کے استعمال میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی، تیار فصل زہریلے اثرات سے بھی بچی رہے گی، فصل کیڑوں کے حملوں سے بھی محفوظ رہے گی اور کھیتوں میں نقصان دہ کیڑوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی باآسانی کنٹرول کیا جا سکے گا۔
کسان حضرات کے لئے یہ بات زیادہ قابل غور ہے کہ پُرانے زمانے میں زہروں کی ایجاد سے پہلے ہمار ے زمیندار حضرات اپنی فصلوں کو کیڑوں کے حملے سے بچانے کے لئے پھندا فصلیں ( ٹریپ کروپس) لگایا کرتے تھے۔ جیسے گندم کے کھیت کے باہر سرسوں کے چند سیاڑ ، کپاس کے ارد گرد تِل اورگنے کے کھیت کے چاروں اطراف سن ککڑا یا بھنڈی کے چند سیاڑ گاشت کر کے نقصان دہ کیڑوں کو اپنی فصل کے اطراف دوسری زیادہ مزیدار خوراک مہیا کر کے اپنی اصل فصل کو کیڑوں کے حملوں سے بچاتے تھے۔ آج کا کسان اس فلسفے کو بالکل ہی بھول گیا اور کُلی طور پر زہروں کے استعمال پر لگ گیا حالانکہ موجودہ دور میں اس ٹریپ کراپ ٹیکنالوجی کو زیادہ مئوثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی پوری فصل پر زہروں کا چھڑکاو کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے صرف ٹریپ کراپ کے اوپر جمع شدہ کیڑوں پر ہی سپرے کرنے سے فصل کو نقصان دہ کیڑوں سے محفوظ بنایا جا سکتاہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم کسانوں کے آزمودہ پُرانے ٹوٹکے وقت کے ساتھ ساتھ بھولتے جارہے ہیں۔ خُدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
۔ اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل فون نمبر 03008660193 پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے