پاکستان آسٹریلیا اور افریقہ سے سالانہ 110 ارب روپے کی دالیں درآمد کرتا ہے۔

پاکستان ہر سال 110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا اور افریقہ درآمد کرتا ہے جوموجودہ مشکل مالی حالات میں معیشت کے لئے ایک بوجھ ہے،ڈاکٹر اشتیاق حسن
ادارہ تحقیقات دالیں ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کی مختصر سیر ڈاکٹر خالد محمود شوق چیف ایڈیٹر ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز ،محمد یٰسین رندھاوا اور میاں عاطفت نسیم کے ہمراہ
فیصل آباد( عاطف نسیم) پاکستان ہر سال 110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا اور افریقہ درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت کےلئے ایک بوجھ ہے۔موجودہ مشکل معاشی حالات میں حکومت کی ہدایت پر دالوں کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کےلئے ترجیحی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدان مونگ اور ماش کی متعارف کردہ نئی اقسام کی آبپاش علاقوں میں کاشت کے فروغ کےلئے جدید پیداواری ٹیکنالوجی کاشتکاروں کی دہلیز تک پہنچانے کےلئے محکمہ زراعت توسیع کے افسران کے شانہ بشانہ کام کریں۔
ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر جنرل اڈپٹیو ریسرچ (فارم اینڈٹریننگ)پنجاب ڈاکٹر اشتیاق حسن نے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں مونگ اور ماش کے سالانہ خریف پیداواری منصوبہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ چیف سائنٹسٹ، شعبہ دالیں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ مونگ اور ماش دالیں ہماری روزمرہ خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور غذائی اعتبار سے ان دالوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔دالوں میں 20 فیصد سے زائد پروٹین ہوتی ہے اور ان میں آئرن کے علاوہ غذائی ریشہ بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر دالوں کوگوشت کاسستا نعم البدل کہا جاتا ہے۔انہوں نے مزیدبتایا کہ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے دالوں کے پودوں کی جڑوں میں مفید بیکٹیریا ہوتے ہیں جن پرنوڈیولز بنتے ہیں جو فضاءسے نائٹروجن کو فکس کر کے
پودوں کو مہیا کرتے ہیں۔
جڑیں گلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں لہذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔اس اجلاس میں ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹر اڈاپٹیو ریسرچ پنجاب خالد اقبال، پرنسپل سائنٹسٹ، محمد عامر امین، ضیاءچشتی،ڈائریکٹر سوشل سائنسز ریسرچ انسٹیٹیوٹ، پی اے آر سی فیصل آباد،ڈاکٹر ارشد بشیر، سینئر سائنٹسٹ،عامر حسین،علی عزیز اور ڈپٹی ڈائریکٹرایگری کلچرل انفارمیشن، محمد قوی ارشاد کے علاوہ محکمہ زراعت توسیع اورایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے مختلف شعبوں کے زرعی سائنسدانوں نے شرکت کی۔
زرعی سائنسدانوں نے اس موقع پر کاشتکاروں کو دالوں کی اہمیت اور کاشت کے فروغ اور فصل کی بہتر دیکھ بھال کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے متعلق معلومات فراہم کیں۔انہوں نے بتایا کہ ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھکر نے مونگ کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار صلاحیت کی حامل متعدد نئی اقسام متعارف کروائی ہیں حکومت پاکستان دالوں کی پیداوار میں اضافہ کےلئے چکوال اورا ٹک کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں دالوں کی کاشت کے فروغ کے لئے جامع منصوبہ کے لئے بھاری رقم مختص کی ہے۔
اس کے علاوہ پلسزریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد نے ماش کی فی ایکڑ زیادپیداوار کی حامل نئی اقسام پنجاب سیڈ کارپوریشن کے علاوہ ترقی پسند کاشتکاروں کو فراہم کی ہیں۔کاشتکار مونگ اور ماش کی منظور شدہ اقسام کو زیر کاشت لا کر فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کو ممکن بنا سکتے ہیں۔کاشتکار کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں دالوں کی مخلوط کاشت کو فروغ دے کر اپنے منافع میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
دالوں کی فصل سے جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوارمیں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔اجلاس میں دالوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لئے کاشت سے لیکر برداشت تک کے عوامل اور اسکی ترقی دادہ اقسام کی کاشت کیلئے موزوں آب و ہوا، شرح بیج، وقت کاشت، زمین کی تیاری، طریقہ کاشت،کھادوں اور پانی کا استعمال، چھدرائی، گوڈی، جڑی بوٹیوں کی تلفی، کیڑوں اور بیماریوں سے تحفظ کے حوالے سے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں کو زرعی تحقیقاتی اداروں میں دالوں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور سفارشات سے آگاہ کیا۔اجلاس کے آخر میں چند ضروری ترامیم کو شامل کرنے کے بعد مونگ اور ماش کے پیداواری منصوبہ کی منظوری دی گئی۔