چھبیس اکتوبر 1968 کو میکسیکو اولمپکس کے ہاکی فائنل کے اختتام پر جب پاکستان کا قومی ترانہ بجایا جا رہا تھا اور پرچم بلند ہو رہا تھا تو اس وقت فاتح کپتان طارق عزیز سینے پر طلائی تمغہ سجائے خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے میں حق بجانب تھے۔
حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال نہیں کھلایا‘
طارق عزیز کے بریگیڈئر حمیدی سے شدید اختلافات رہے۔ اس بات کا ذکر وہ بڑی تفصیل سے کرتے ہیں۔
’حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال تک ٹیم سے باہر رکھا۔ مجھ سے بھی کچھ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ دراصل ہم دونوں غصے کے تیز تھے۔ وہ غصہ کرتے تو میں ان سے زیادہ غصہ دکھاتا اسی وجہ سے بات بگڑ تی چلی گئی
طارق عزیز کا بی بی سی کو ماضی میں دیا گیا انٹرویو
چھبیس اکتوبر 1968 کو میکسیکو اولمپکس کے ہاکی فائنل کے اختتام پر جب پاکستان کا قومی ترانہ بجایا جا رہا تھا اور پرچم بلند ہو رہا تھا تو اس وقت فاتح کپتان طارق عزیز سینے پر طلائی تمغہ سجائے خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے میں حق بجانب تھے۔
ان کی قیادت میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے نہ صرف کھویا ہوا اولمپک اعزاز دوبارہ حاصل کر لیا تھا بلکہ اس جیت نے پاکستان کی ہاکی کو نئی زندگی بھی دی تھی۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کو سنہ 1964 کے ٹوکیو اولمپکس کے فائنل میں انڈیا سے ہارنے کے بعد سنہ 1966 میں بنکاک ایشین گیمز کے فائنل میں بھی اپنے روایتی حریف کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا جس کے بعد پاکستانی ہاکی ٹیم کے قابل اعتماد ہونے کے بارے میں عام رائے تبدیل ہو چکی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی ٹیم میکسیکو روانہ ہو رہی تھی تو اسے گولڈ میڈل کے لیے فیورٹ نہیں سمجھا جا رہا تھا لیکن اس اولمپکس میں ٹیم نے جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ان تاریخی لمحات کو بیان کرنے والے فاتح ٹیم کے کپتان طارق عزیز ہوں تو سونے پہ سہاگہ۔
83 سالہ طارق عزیز بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’میکسیکو کی سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ بلندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تربیتی کیمپ مری کے قریب لوئر ٹوپہ میں لگایا گیا تھا۔‘
’اس تین ماہ طویل کیمپ میں کھلاڑیوں نے سخت محنت کی تھی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور ایئرمارشل نور خان کے ہاتھوں میں آ چکی تھی جبکہ بریگیڈیئر عاطف ٹیم کے مینیجر مقرر کیے جا چکے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس زمانے میں کچھ صحافیوں نے عاطف کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ عاطف کا کہنا تھا کہ لاہور میں بیٹھ کر تنقید کرنے والے صحافی کیمپ میں آ کر ٹیم کی تیاری دیکھیں اور پھر جو مرضی دل میں آئے لکھیں۔ جب ان صحافیوں نے قومی کیمپ میں آ کر ٹیم کی ٹریننگ دیکھی تو انھیں اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی۔‘
ہالینڈ کے منیجر کو ‘کرارا جواب’
پاکستان نے میکسیکو اولمپکس کا آغاز ہالینڈ کو چھ گول سے ہرا کر کیا تھا جس میں رشید جونیئر کے تین تنویر ڈار کے دو اور اسد ملک کا ایک ایک گول شامل تھا۔
طارق عزیز بتاتے ہیں کہ ’اس میچ سے ایک رات پہلے میری ہالینڈ کے مینیجر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کل کے میچ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے تحمل سے جواب دیا کہ اچھا میچ ہو گا لیکن انھوں نے کہا نہیں۔ یہ میچ ہم جیتیں گے۔‘
’میں نے ان سے کہا کہ میں نے تو آپ سے یہ نہیں کہا کہ ہم جیتیں گے لیکن اب اگر آپ یہ بات کہہ رہے ہیں تو سن لیں کل کا میچ ہم جیتیں گے۔‘
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’ہالینڈ کے مینیجر نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ ہماری ٹیم آپ کے ایک کھلاڑی سینٹر فارورڈ طارق نیازی سے ڈرتی ہے وہ بہت خطرناک کھلاڑی ہیں۔ اگر وہ ہمارے پاس ہوں تو دنیا کی کوئی ٹیم ہمیں نہیں ہرا سکتی۔‘
’ان کی یہ بات سن کر میں نے جواب دیا آپ فکر مت کریں۔ کل کے میچ میں ہم طارق نیازی کو نہیں کھلا رہے، ہم ایک جونیئر کھلاڑی کھلائیں گے اور اسی سے آپ کو ہرائیں گے۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ شام کو مینیجر عاطف کے ساتھ واک کرنے جایا کرتا تھا۔ ہالینڈ کے خلاف میچ سے ایک روز قبل عاطف نے مجھ سے پوچھا کہ تجربہ کار طارق نیازی کو کھلائیں یا نئے کھلاڑی رشید جونیئر کو سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر موقع دیں۔ اس گفتگو کے دوران یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ رشید جونیئر کو کھلانا ہے۔‘
حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال نہیں کھلایا‘
طارق عزیز کے بریگیڈئر حمیدی سے شدید اختلافات رہے۔ اس بات کا ذکر وہ بڑی تفصیل سے کرتے ہیں۔
’حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال تک ٹیم سے باہر رکھا۔ مجھ سے بھی کچھ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ دراصل ہم دونوں غصے کے تیز تھے۔ وہ غصہ کرتے تو میں ان سے زیادہ غصہ دکھاتا اسی وجہ سے بات بگڑ تی چلی گئی۔۔
بشکریہ بی بی سی
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’رشید جونیئر بہت خوش قسمت کھلاڑی تھے۔ وہ کیمپ میں پریکٹس کے دوران زیادہ گول نہیں کرتے تھے لیکن جس دن ایئرمارشل نور خان کیمپ کا دورہ کرتے وہ دو تین گول کر دیتے تھے۔‘
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’عاطف نے منیجر بننے کے بعد ٹیم میں اہم تبدیلیاں کی تھیں۔ ان سے پہلے بریگیڈیئر حمیدی منیجر تھے جنھوں نے رشید جونیئر کو کیمپ سے ہی باہر کر دیا تھا حالانکہ سلیکٹرز نے انھیں منتخب کیا تھا۔‘
’عاطف نے منیجر بننے کے بعد رشید جونیئر کو رائٹ ان کے بجائے سینٹر فارورڈ کھلایا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ رشید جونیئر اپنے کریئر میں بہترین سکورر ثابت ہوئے۔‘
پاکستانی ٹیم کوئی میچ نہیں ہاری
پاکستانی ہاکی ٹیم نے میکسیکو اولمپکس میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اپنے تمام دس میچ جیتے تھے۔
طارق عزیز آسٹریلیا کے خلاف گروپ میچ کے بارے میں بتاتے ہیں ’پہلا ہاف ختم ہوا تو آسٹریلیا کو دو ایک کی برتری حاصل تھی۔ اس موقع پر ایئر مارشل نور خان فکرمند دکھائی دے رہے تھے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہو گا؟ میں نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا گھبرائیں مت، ہم یہ میچ جیتیں گے۔ دوسرے ہاف میں ہم نے دو گول کردیے۔ دونوں گول میں نے پنالٹی کارنرز پر کیے تھے۔‘
پاکستان نے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی کو سخت مقابلے کے بعد ایک گول سے ہرایا تھا۔
طارق عزیز بتاتے ہیں ’مقررہ وقت پر یہ میچ برابر رہا تھا۔ میرے ایک پنالٹی کارنر پر ہمیں پنالٹی سٹروک بھی ملا لیکن سعید انور نے اسے ضائع کر دیا‘
’ایکسٹرا ٹائم میں بھی گول نہ ہو سکا۔ سڈن ڈیتھ میں رائٹ آؤٹ خالد محمود نے تین کھلاڑیوں کو ڈاج دیتے ہوئے خوبصورت گول کر کے ہمیں فائنل میں پہنچا دیا تھا۔
‘اسد ملک کو باہر نہیں بٹھا سکتا’
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’ٹورنامنٹ کے دوران عاطف نے مجھ سے کہا کہ ایئرمارشل نور خان کا خیال ہے کہ ہمیں اسد ملک کی جگہ لئیق احد کو آزمانا چاہیے لیکن میں نے تم سے بات کیے بغیر ہی انھیں بتا دیا ہے کہ کپتان نہیں مان رہا ہے لہٰذا اگر وہ تم سے بات کریں تو تم بھی یہی جواب دینا۔‘
’ایئر مارشل نور خان نے جب یہ ذکر چھیڑا تو میں نے ان سے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم اسد ملک کی وجہ سے ہی جیت رہے ہیں۔ ٹیم بھی جیت رہی ہے لہٰذا میں انھیں باہر نہیں کر سکتا۔ میری یہ بات صحیح ثابت ہوئی کیونکہ آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں اسد ملک نے ہی فیصلہ کن گول کر کے پاکستان کو اولمپک چیمپیئن بنوایا۔‘
پاکستان نے میکسیکو اولمپکس میں مجموعی طور پر چھبیس گول کیے تھے جن میں رشید جونیئر کے سات تنویر ڈار کے چھ اور اسد ملک کے پانچ گول قابل ذکر تھے۔
میکسیکو اولمپکس جیتنے کے بعد جب پاکستانی ٹیم وطن واپس آئی تو روم اولمپکس کی جیت کی طرح اس بار بھی فاتح کھلاڑیوں کو مختلف شہروں میں لے جایا گیا جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔
صدر جنرل ایوب خان نے کھلاڑیوں کے لیے انعامات کا اعلان کیا۔ فائنل میں فیصلہ کن گول کرنے والے اسد ملک کی ایکشن تصویر پہلی بار پاکستان کے ڈاک ٹکٹ کی زینت بنی۔
کپتان طارق عزیز اور خالد محمود کے لیے حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کا بھی اعلان کیا۔
اقوام متحدہ کا دورہ
طارق عزیز بتاتے ہیں کہ ’میکسیکو سے وطن واپس آتے ہوئے حکومت نے پاکستانی ٹیم کے لیے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے دورے کا بھی اہتمام کیا تھا۔‘
’ٹیم نے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل اوتھانت سے بھی ملاقات کی تھی اور اس موقع پر میں نے انھیں ہاکی سٹک بھی پیش کی تھی جس پر تمام کھلاڑیوں کے دستخط تھے۔‘
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ‘میں نے میکسیکو اولمپکس کے بعد بین الاقوامی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ ایئر مارشل نور خان چاہتے تھے کہ میں مزید کھیلوں۔‘
’ان کی خواہش تھی کہ میں مارچ 1969 میں اپنے ہی شہر لاہور میں ہونے والا انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کھیلوں لیکن میں نے معذرت کر لی تھی۔ اتفاق دیکھیں کہ سولہ مارچ کو جب اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پاکستان کی دونوں ٹیمیں مدمقابل تھیں اسی روز میری شادی تھی اور اس میں تمام کھلاڑی شریک ہوئے تھے جس کے بعد وہ فائنل کھیلنے گئے تھے۔
’حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال نہیں کھلایا‘
طارق عزیز کے بریگیڈئر حمیدی سے شدید اختلافات رہے۔ اس بات کا ذکر وہ بڑی تفصیل سے کرتے ہیں۔
’حمیدی نے مجھے ڈیڑھ سال تک ٹیم سے باہر رکھا۔ مجھ سے بھی کچھ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ دراصل ہم دونوں غصے کے تیز تھے۔ وہ غصہ کرتے تو میں ان سے زیادہ غصہ دکھاتا اسی وجہ سے بات بگڑ تی چلی گئی۔‘
طارق عزیز نے بتایا کہ ’1967 میں لندن میں پری اولمپک ٹورنامنٹ تھا۔ پاکستانی ٹیم ایسٹ جرمنی اور ویسٹ جرمنی دونوں سے ہارگئی تو ٹیم منیجر حمیدی نے مجھ سے کہا کہ تم اگلا میچ کھیلو
پروفیسر ڈاکٹر طارق عزیز خواجہ آج کل لاہور میں ھیں اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ کلینیکل میڈیسن اینڈ سرجری سے بطور پروفیسر ریٹائرڈ ھوئے.