اسلام دین فطرت ہے، اس کا پیغام امن و آشتی اور محبت کا پیغام ہے، اور رحمتِ کریمی صرف انسانوں تک محدود نہیں، ہر ذی روح تک محیط ہے۔ اس کے فیوض و برکات نے جہاں عالمِ انسانیت کو سیراب کیا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمتِ بے کراں سے مالامال کیا۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں اہلِ عرب جانوروں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کرتے تھے۔ نزولِ اسلام کے بعد گویا ان بے زبان جانوروں کو بھی جائے اماں ملی۔ اللہ ربّ العزت اور محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق متعیّن کرکے رہتی دنیا تک انہیں تحفظ فرما دیا اور ان سے بدسلوکی کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب کی وعید سنائی۔ جانوروں کی اہمیت اور ان کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے دو سو آیات میں جانوروں کا ذکر فرمایا ہے، جب کہ کچھ سورتوں کے تونام ہی جانوروں کے نام پر ہیں۔ جیسے سورۃ البقرہ (گائے)، سورئہ نحل (شہد کی مکھی)، سورئہ نمل (چیونٹی)، سورئہ عنکبوت (مکڑی)، سورئہ فیل (ہاتھی)۔قرآن کریم میں35جانوروں کا ذکر آیا ہے۔ پرندوں میں بٹیر، ہدہد، کوّےکا۔
آبی جانوروں میں وہیل مچھلی، مینڈک کا۔ پالتو جانوروں میں گائے، بکرے، بھیڑ، اونٹ، گدھے، خچر، کتّے اور گئوسالہ (بچھڑے)کا۔ جنگلی جانوروں میں شیر، ہاتھی، بندر، سوّر، اژدھے کا اور حشرات میں مچھر، مکّھی، مکڑی، تتلی، ٹڈی، چیونٹی، شہد کی مکّھی وغیرہ۔ قرآنِ کریم میں حقیر جانوروں کا ذکر کرنے پر کچھ کفار نے اعتراض بھی کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ترجمہ: ’’بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لیے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے، (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشان دہی) ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں کوئی بھی شے بلامقصد پیدا نہیں کی۔ اسی طرح جانوروں سے حاصل ہونے والے فوائد و خصائص کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا گیا۔ ترجمہ: ’’اسی نے چوپائے پیدا کیے، جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے۔ جب چَرا کر لائو، تب بھی اور جب چَرانے لے جائو، تب بھی اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں، جہاں تم زحمتِ شاقہ کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتے۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے اور اسی نے گھوڑے، خچّر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق و زینت (بھی ہیں)۔ (سورۃ النحل)۔ حضور نبی کریمﷺ نے بعض جانوروں کی مخصوص صفات اور منفرد خوبیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا۔ گھوڑے کے متعلق فرمایا۔ ’’گھوڑے کے ساتھ قیامت کے دن تک خیر وابستہ ہے۔‘‘ (مسلم)۔ مرغ کے بارے میں فرمایا ’’مرغ کو گالی نہ دو، کیوں کہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے۔‘‘ (ابودائود)۔
جانوروں کا حقِ خوراک:جانوروں کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھیں۔ انسان کچھ جانور اور پرندے شوق کی خاطر پالتا ہے، تو کچھ دودھ، گوشت وغیرہ کے لیے اور کچھ آمدورفت کے لیے۔ ہر جانور کو ویسا ہی چارہ یا دانہ دیا جائے، جیسا وہ کھاتا ہے۔ جانور کو بھوکا رکھنے کا مطلب خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ اونٹ نے جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو اس نے بلبلا کر غم ناک آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت سے اس کی دونوں کنپٹیوں اور کوہان پر ہاتھ پھیرا۔ پھر آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری آگے آیا اور بولا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اس بے زبان جانور کے بارے میں اللہ سے ڈر، جسے اللہ نے تیرے اختیار میں دے رکھا ہے، یہ اونٹ اپنے آنسوئوں اور اپنی آواز کے ذریعے مجھ سے تیری شکایت کررہا ہے۔‘‘حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلّی کو قید کرکے رکھا ہوا تھا، وہ اسے غذا دیتی اور نہ اس کو آزاد کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی۔‘‘ (بخاری)۔
جانوروں پر رحم کرنا:جانوروں کا ایک حق یہ ہے کہ ان پر رحم کیا جائے، ان کے گھونسلوں کو نہ توڑا جائے، پرندوں کو بلاضرورت نہ پکڑا جائے، پرندوں کے گھونسلوں سے ان کے انڈوں اور بچّوں کو نہ نکالا جائے، پرندوں پر رحم نہ کھانا، ظلم، زیادتی اور گناہ ہے، جس پر عذاب کی وعید ہے۔ حضرت عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا، اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی، جو کمبل میں چھپی ہوئی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں گھنے جنگل سے گزر رہا تھا، وہاں میں نے پرندوں کی آوازیں سنیں، تو ان کے گھونسلوں سے ان کے بچّوں کو پکڑ کر اپنے کمبل میں چھپالیا، ان بچّوں کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے کمبل کھولا، تو وہ بھی کمبل کے اندر اپنے بچّوں کے پاس آگئی، لہٰذا میں نے اسے بھی چھپالیا۔ اب وہ بھی میرے کمبل میں موجود ہے۔‘‘ حضورؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا۔ ’’ان سب کو نیچے رکھو۔‘‘ اس نے سب کو کمبل سے نکال کر سامنے رکھ دیا، تو ان بچّوں کی ماں بے قراری کے ساتھ بچّوں کے گرد طواف کرنے لگی اور فرطِ محبت سے انہیں چمٹانے لگی۔ یہ دیکھ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم لوگ ماں کی اپنے بچّوں کے ساتھ محبت پر حیران ہورہے ہو، اس ربِ کائنات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ رب اپنے بندوں کے ساتھ اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔‘‘ پھر اس شخص سے فرمایا۔ ’’جائو، ان بچّوں کو ان کی ماں کے ساتھ وہیں چھوڑ آئو، جہاں سے لائے ہو۔‘‘ (ابو دائود)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران رسول اللہؐ نے ایک جگہ مختصر قیام فرمایا۔
آپؐ کی جماعت کے ایک شخص نے قریبی گھونسلے سے ایک چڑیا کا انڈا اٹھالیا۔ چڑیا آئی اور حضورؐ کے سر پر پھڑپھڑانے لگی۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سے کس نے اس کے انڈوں کے بارے میں اسے دکھ پہنچایا ہے۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اس کے انڈے کو اٹھا لیا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اس پر رحم کرتے ہوئے اس کے انڈے کو واپس رکھ دو۔‘‘ (الادب المفرد)۔عموماً لوگ باربرداری کے جانوروں، خاص طور پر گدھوں اور خچّروں پر بے تحاشا بوجھ لاد دیتے ہیں، جو ان کی سکت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، پھر جب وہ جانور بوجھ اٹھا نہیں پاتا تو اسے بے دردی سے پِیٹتے ہیں۔ جانوروں کو مارنا پِیٹنا، ان پر ہمّت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے۔ بے زبان جانور، ظالم مالک سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اللہ سے اس کے لیے بددعا ضرور کرتا ہے۔ لہٰذا جانوروں کے ساتھ رحم کا برتائو کرکے ان کی بددعائوں سے بچنا چاہیے۔
جانوروں کو اذیّت نہ دیں: جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ انہیں اذیت نہ دی جائے۔ جانوروں کو مارنا، ان کے جسم کو داغنا، جسم کے مختلف حصّوں پر چیرے لگانا اور چھوٹے معصوم پرندوں پر نشانہ بازی کرنا اذیت کے زمرے میں آتا ہے، جو نہایت ناپسندیدہ فعل ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی، جو کسی ذی روح کو نشانہ بنائے۔‘‘(متفق علیہ)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’اس شخص پر لعنت ہو، جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)۔ اکثر لوگ نشانہ بازی کی مشق یا شوق کی خاطر جانوروں کو باندھ کر کھڑا کرتے ہیں اور پھر ان پر تیر یا نیزے وغیرہ سے نشانہ بازی کرتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔ بندوق یا غلیل وغیرہ سے چھوٹے معصوم پرندوں کو نشانہ بنانا بھی سخت منع ہے۔
زندہ جانور کے جسم کے کسی بھی حصّے کا گوشت کاٹنا نہایت قبیح اور مکروہ فعل ہے۔ حضور نبی کریمؐ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپؐ نے دیکھا کہ لوگ اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکّیاں کاٹ لیتے ہیں اور انہیں نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔ آپؐ نے حکم فرمایا کہ ’’زندہ جانور کے جسم سے جو حصّہ کاٹ لیا جائے، وہ مردار ہے، اسے نہ کھایا جائے۔‘‘ (ترمذی، ابودائود)۔ جانوروں کو آپس میں لڑوانا، چاہے وہ مرغ ہوں یا بٹیر، مینڈھے ہوں یا کوئی اور جانور، نہایت ناپسندیدہ فعل ہیں، جن کی سخت ممانعت ہے۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مویشیوں کو آپس میں لڑوانے سے منع فرمایا ہے۔ (ترمذی)۔اسی طرح کم زور جانور پر تین آدمیوں کی سواری کو ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔
جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک: جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے۔ ایک صحابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’میں نے بہ طورِ خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے، اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی پانی پینے آجاتے ہیں، اگر میں انہیں بھی سیراب کردوں، تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہاں، ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسنِ سلوک سے ثواب ملتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’ایک بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں پر ہوا، جس کے قریب ایک کتّا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا اور قریب المرگ تھا، اس وقت کنویں سے پانی نکالنے کے لیے کچھ موجود نہ تھا۔
عورت نے جب یہ دیکھا، تو جلدی سے اپنا چرمی موزا اتار کر اسے اپنی اوڑھنی کے پلّو سے باندھا اور کنویں سے پانی نکال کر اس کتّے کو پلایا۔ اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوا اور اس کی بخشش کردی گئی۔‘‘ اس موقعے پر صحابہؓ نے دریافت کیا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا جانوروں کے ساتھ بھلائی کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں! ہر ذی روح کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں صدقے کا اجر ہے۔‘‘ (بخاری)۔
جانوروں کے آرام کا خیال رکھنا: جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے جانوروں کے آرام کا خیال رکھنے کی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ جانوروں کو تنگ کرنا، بلاضرورت دوڑانا، پریشان کرنا سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ قربانی کے جانور اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، عموماً دیکھا گیا ہے کہ دن رات کا خیال کیے بغیر انہیں گلی، محلّوں میں دوڑایا جاتا ہے، ان کی نمائش کرکے تماشا بنایا جاتا ہے، گھروں کے بچّے انہیں کھیل اور تفریح سمجھ کر گھسیٹتے پھرتے ہیں، جب کہ گھر کے بڑے جانوروں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ سب ناپسندیدہ اور گناہ کے کام ہیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے واپسی پر دورانِ سفرعقب سے اونٹوں کو مارنے اور انہیں تیز ہنکانے کی آواز سنیں، تو آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! آرام سے چلو، اونٹوں کو دوڑانا اجر کا سبب نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم سبزے والی زمین پر سفر کرو، تو اونٹوں کو ان کا حصّہ دو۔‘‘ (صحیح مسلم)۔صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب سفر پر ہوتے اور راستے میں سبزے والی جگہ نظر آتی، تو اپنے سفر کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کر کے اونٹوں کو چَرنے کے لیے چھوڑ دیتے ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب ہم کسی منزل پر اترتے ،تو نماز اس وقت تک نہیں پڑھتے، جب تک کہ اونٹوں کے کجاوے کو کھول نہیں دیتے تھے۔‘‘
ذبح کرتے وقت احتیاطی تدابیر: جانور کو ہمیشہ تیز دھارآلے سے ذبح کیا جائے، تاکہ اسے تکلیف نہ ہو، ذبح کرنے سے قبل جانور کو دانہ پانی دیں۔ خیال رکھیں کہ وہ بھوکا نہ ہو۔ چھری کو پہلے سے تیز کر لیں۔ جانور کو قبلہ رخ لٹائیں۔ تکبیر کہہ کر تیز دھار آلے سے ذبح کریں۔ کھال اتارنے میں جلدی نہ کریں۔ جانور کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں۔ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کریں۔ عیدِ قرباں میں ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ قسائی وقت کی بچت کی خاطر ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے، لہٰذا اہلِ خانہ پر لازم ہے کہ وہ قسائیوں سے ان پر عمل کروائیں۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے رحم کیا، اگرچہ ذبح کیے جانے والے جانور ہی پرہو، تو اللہ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائے گا۔‘‘ (طبرانی)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ایک شخص بکری کو لٹاکر اس کے سامنے چھری تیز کرنے لگا، تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی چھری اسے لِٹانے سے قبل تیز کیوں نہیں کرلی۔‘‘ (مستدرک حاکم)۔
جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، وہ بھی جب تک ایذا نہ دیں، انہیں بلاوجہ جان سے مار ڈالنا درست نہیں۔ اسی طرح صرف تفریحِ طبع کی خاطر کسی حلال جانور کی جان لے لینا بھی درست عمل نہیں۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب کسی چیز کو جان سے ختم کرنا ہو، تو اسے اچھی طرح ختم کردو۔ جب کسی کو ذبح کرو، تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کرلیا کرو اور ذبیحہ کو آرام دیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)۔
موذی جانوروں کو مارنے میں احسان کا حکم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موذی اور تکلیف دہ جانوروں مثلاً سانپ، بچّھو، گرگٹ، چھپکلی وغیرہ کو مارنے کا حکم تو دیا ہے، لیکن انہیں مارنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم ہے۔ حضورؐ نے ایک جانور کو آگ سے جھلسا دیکھا، تو فرمایا ’’کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ جانور کو آگ سے تکلیف پہنچائے، سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔ (ابودائود)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مارڈالے اس کے لیے سو نیکیوں کا ثواب ہے۔
دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ حضرت سالم بن عبداللہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سانپوں کو قتل کرو۔ اس سانپ کو بھی قتل کردو، جس کی پشت پر سیاہ نقطے ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹی دم والے سانپ کو بھی قتل کرو، کیوں کہ یہ دونوں بینائی کو زائل اور حمل کو گرادیتے ہیں۔ (ترمذی)۔