از قلم: ڈاکٹر فہد رشید ،پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد خاں اورڈاکٹر ممتاز احمد خاں
امریکہ ترقی اور امارت کے لحاظ سے دنیا کا امیر ترین ملک ہے اس لیے وہ خطے میں موجود تمام ممالک پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔اپنی اس ہوس کو پورا کرنے کے لئے وہ مختلف حربے استعمال کرتا ہے جیساکہ اپنے جدید اسلحے کی فروخت کے لئے مختلف ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا ، معدنی تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو آپس میں لڑا کر تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ، اسرائیل کے ذریعے بمباری کرواکر ملکوں پر اپنا تسلط قائم رکھنا اور ملکوں کے اند انتشار پھیلا کر سازشوں کے ذریعے حکومتیں گرانا وغیرہ تو عام فہم حربے ہیں لیکن کچھ تکنیکی حربے ایسے ہیں جو بظاہر مالی امداد کی آڑ میں ملکوں کے معاشی اور ماحولیاتی نظا م کو تباہ کرنے سے متعلق ہیں ۔جن کے اثرات دیر بعد ظاہر ہونے والے، دور رس اور انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔
سیم تھور کے مسئلے پر ہمارے ملک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی گھناونا کھیل کھیلا گیا۔ جس کے خطرناک نتائج سے آگاہی اور ان کو زائل کرنے سے متعلق اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔لیکن ہمارے ارباب اقتدار آج تک ان سے غافل رہے اورشاید آئندہ بھی اسی طرح سے غافل رہیں گے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر زراعت سے متعلق تمام اہم وسائل سے آراستہ ہے۔پہاڑوں سے نکلنے والے پانچ دریا اس کے طول و عرض میں بہتے ہیں۔زمین ہموار اور دریاؤں کی لائی ہوئی زرخیز مٹی سے بنی ہے۔اس خطے کی زمینیں گہری اور میٹھے زمینی پانی کی نعمت سے مالا مال ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد حصے میں آنے والے پانچ دریاوں کی وجہ سے پاکستان پانی جیسی ضروری نعمت سے مالامال تھا لیکن سند ھ طاس معاہدہ طے پاجانے کے بعد ہمارے پانچ میں سے دو دریاوں کا پانی ہمسایہ ملک بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت نے وقت کے ساتھ بہت سارے ڈیم بنا کر نہ صرف اپنے حصے کا پانی محفوظ کرلیابلکہ ہمارے حصے کے پانی پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پا جانے کے بعد پاکستان نے بھی اپنے حصے کا پانی جمع کرنے کے لئےچند بڑے ڈیم بنائے لیکن وقت کے ساتھ ہمارے ارباب اقتدار پانی جیسی عظیم نعمت کی افادیت کو بھولتے چلے گئے اور نئے ڈیم بنانے میں ہمیشہ کوتاہی برتتے رہے ۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ پانی کے بغیر زندگی کی بقا ممکن نہیں شاید اسی وجہ سے ہماری کہکشاں میں موجود دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار ناپید ہیں۔ پانی اللہ تعالی کی طرف سے عنایت کی گئی ہزاروں نعمتوں میں سب سے قیمتی تحفہ ہے۔کیونکہ پانی زندگی کی علامت ہے اسی لیے ہمارے پیارے مذہب میں بھی انسانوں کو اس کے بے جا زیاں سے روکا گیا ہے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے پر ہمارے ہاں آبادی کم تھی اور اسی حساب سے کاشتہ زمینیں بھی محدود تھیں ۔لامحالہ نہری پانی کی فراوانی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی بڑھی تو خوراک کے حصول کے لئے بے آبادزمینوں پر بھی کاشتکاری ہونے لگی۔ وسیع و عریض نہری نظام کے ذریعے آبپاشی کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خوراک کی کمی کو پورا کیا جاتا رہا۔ کیونکہ ہماری زمینیں مسامدار اور نامیاتی مادے سے بھرپور تھیں اس لئے دہایوں پہلے بنائے گئے نہری نظام اور کھیتوں میں ناقص سیلابی آبپاشی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سطح زمین کے اندر پانی کا دخول جاری رہا۔ اسی طرح مون سون کے مہینوں میں بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال نے بھی زرعی علاقوں میں سطح زمین کے اندر پانی کے دخول میں اضافہ کیا اور یوں وقت کے ساتھ ہمارے ہاں زمینی پانی کی سطح بلند ہونے پر ملک کا بہت سارا علاقہ سیم تھور کی زد میں آگیا ۔جس سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تو سیم تھور کے اس مسئلے کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔ لامحالہ اس کا حل ڈھونڈنے کے لئےملکی اور عالمی سطح پر سیمینار کرائے گئے جن میں امریکہ، انگلینڈ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں نے شرکت کی۔یوں اس غیر معمولی صورتحال سے نپٹنے کے لئے اعلیٰ سطح پر شفارشات مرتب کی گئیں اور ان پر عملی اقدامات کرنے کے لئے زور دیا گیا۔
سیم تھور کا یہ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہونے کی وجہ سے امریکہ نے 1978 کی دہائی میں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن واشنگٹن کے تعاون سے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ سکارپ پروجیکٹ (فور)کے تحت کریڈٹ نمبر 0754 پاک کے نام سے پاکستان کو 70ملین ڈالر کی مالی امدادکے ساتھ ساتھ تکنیکی مدد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی اور یہ باور کروایا کہ آپ لوگ کشمیر کی آزادی خاطر جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ پاکستان کے بیشتر علاقے سیم اور تھور ہو جانے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ جس سے زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے ۔ایسی صورتحال میں آپ کا ملک آئندہ سالوں میں خوراک کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے۔ان حالات کے پیش نظر ایک دوست اور خیر خواہ ہونے کے ناطے امریکہ آپ کو مالی اور فنی امداد فراہم کرے گا تاکہ سیم اور تھور کی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ ہمارے ارباب اقتدار نے بلا سوچے سمجھے امریکہ کی اس پیشکش کا بھرپور طریقے سے خیر مقدم کیا اور یوں ایک معاہدے کے تحت یہ امداد حاصل کرلی گئی۔ کیونکہ سیم تھور سے جان چھڑانا ایک تکنیکی مسئلہ تھااس لیے امدادی معاہدے کی شرائط کے تحت بہت سارے متعلقہ انجنیئر حضرات کو فنی تربیت کے حصول کی خاطر امریکہ بھی بھیجا گیا۔
اب اگر ان حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مالی امداد، انجنیئر ز کی تربیت اور سیم نالیوں کی کھدائی کے لئے پرانی مشینری دینا پاکستان کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش تھی جس کے تحت بڑے پیمانے پر سیم نالیاں نکال کر ہمارےہاں قدرتی ماحول کو بُرے طریقے سے تباہ کیا گیا۔
اب اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔امریکہ نے اس فنی ٹریننگ کی آڑ میں دی گئی امداد کا نہ صرف بیشتر حصہ واپس لے لیا بلکہ دی جانے والی فیل شدہ ٹیکنالوجی کے ساتھ بہت ساری پرانی مشینری بھی پاکستان کے حوالے کر دی تاکہ ملک کے طول وعرض میں موجود ان سیم زدہ علاقوں اور قدرتی جھیلوں کے پانی کو سیم نالیوں کا جال بچھا کر دریاؤں سے ملاتے ہوئے سمندر بُرد کیا جاسکے۔ یوں پیسے کے لالچ میں ہمارے ارباب اقتدار بھی اس بڑی سازش کا حصہ بنے اور ملک میں ماحولیاتی تباہی کے حالات پیدا کرنے میں شامل ہوگئے۔
مقولہ ہے کہ اگر بندر کے ہاتھ میں استرا تھما دیا جائے تو وہ خود ہی اپنا گلہ کاٹ لیتاہے کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا ۔امریکہ سے تربیت یافتہ ہمارے ان ناعاقبت اندیش انجینئر ز نے بلا غوروفکر کیے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں اور فراہم کی گئی مشینری کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کے تمام صوبوں میں سیم نالیوں کا جال بچھا دیا یعنی انہوں نے بندر والے مقولے پر شدومد سے عمل کیا اور پاکستان کے تمام متاثرہ علاقوں میں سیم نالیاں نکال کر زمینوں پر کھڑا غیر ضروری سیم کا پانی نکالنے کے ساتھ ساتھ قدرتی جھیلوں اور ندی نالوں کا پانی بھی دریا بُرد کردیا۔
ایک پروفیسر اور ماہر زراعت ہونے کے ناطے میں سیم نالیاں نکالنے کے اس مکروہ فعل کو ملک کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش سمجھتا ہوں۔ یہ بات انتہائی غور طلب ہے کسی بھی علاقے کے قدرتی ماحول میں اس طرح کی بڑی بڑی تبدیلیاں لانے سے پہلے ان کے زیرِ اثر پیدا ہونےوالے حالات پر انتہائی سنجیدگی سے غورو فکر کرنا بہت ضروری تھا ۔ جس پر ہمارے انجینئر ز نے بالکل عمل نہیں کیا۔ لا محالہ اس غلطی کا خمیازہ ہماری قوم بھگت رہی ہے اور آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔ ہمارے انجینئرز نے اس مسئلے کا بائیولوجیکل حل (سیم زدہ علاقوں میں سفیدے کے جنگل اُگا کر) ڈھونڈنے کی بجائے انجینئرنگ حل اپناتے ہوئے قدرتی ماحول میں بڑی تبدیلیاں لا کر ہماری آنے والی نسلوں کو ایسے گھمبیر مسائل سے دوچار کر دیا ہے جس کا حل انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن بھی ہو سکتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں کھودی جانے والی سیم نالیوں اور ان کے ذریعہ پانی کے بےبہا اخراج سے پیدا ہونے والے بہت سارے اثرات تو ظاہر ہوچکے ہیں اور بہت سارے اثرات آئندہ آنے والے سالوں میں ظاہر ہو سکتے ہیں جو مسائل میرے مشاہدے میں آئے ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوںجو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔وقت کے ساتھ ساتھ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور ہماری زمین نئی آباد کاریوں اوربچھائے گئے سڑکوں کے جال کی وجہ سے سکڑ رہی ہے۔ جسے ہم نےغیروں کا آلہ کار بنتے ہوئے بڑے پیمانے پر سیم نالیاں نکال کر مزید سکیڑ دیا۔ یاد رہے!جتنا علاقہ ہم نےسیم کا پانی نکال کر قابل کاشت بنایا ہے اس سے سینکڑوں گنا رقبہ ہم نے سیم نالیوں کے اندرہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جس پر کاشتکاری کے ذریعے کبھی خوراک پیدا نہیں ہو سکے گی۔
2۔ ہمارے ملک میں جنگلات کی بہت زیادہ کمی تھی اور ابھی تک ہے جسے سیم سے متاثرہ ان علاقوں میں درخت اگا کر کسی حد تک پورا کیا جا سکتا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں سیم تھو ر کے اس مسئلے کا بائیولوجیکل یا مختلف قسم کے درخت اُگا کر حل کرنا زیادہ سودمند تھا۔ لیکن ہمارے انجینئر حضرات نے اس بنیادی ملکی ضرورت کو پش پشت ڈالتے ہوئے اس مسئلے کا انجینئرنگ کے ذریعہ حل ڈھونڈ کر (سیم نالیاں کھود کر) وطن عزیز کو ہمیشہ کے لئے گھمبیر مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا۔جس سے نکلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
3. یاد رکھیے! ہمارے ملک میں پہلے ہی نہری پانی کی شدید قلت ہے ۔ اب سیم نالیوں کے ذریعے سیم کا پانی نکال کر خشک کئے گئے علاقے کاشتکاری کے قابل تو ہوگئے لیکن نہری پانی کی قلت سے یہ اب بھی غیر کاشتہ اور بیکار پڑے ہیں یا پھر کہیں کہیں ان کو ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کر کے کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ اب جن علاقوں میں زمینی پانی خراب ہے وہاں یہ زمینیں ویران پڑی ہیں جو کہ سیم نالیاں نکالے جانے سے پہلے بہت ساری آبی حیات (مچھلی جھینگے وغیرہ) مہمان پرندوں (مرغابی ، کونج، بگلے وغیرہ) اور دوسرے دلدلی علاقوں میں پانے جانے والے جنگلی جانوروں کا مسکن تھیں جو پانی ختم ہونے سے اپنی وہ افادیت بھی کھو بیٹھیں ہیں۔
4۔کیونکہ یہ سیم نالیاں قدرتی جھیلوں, ندیوں اور سیم زدہ علاقوں میں کھڑے پانیوں کو نکال کر دریاؤں میں ڈالنے کے لئے بنائی گئی تھیں لامحالہ ان کے ذریعے وہ سارا پانی دریاؤں اور پھر سمندر کی نذر ہو گیا۔موجودہ حالات میں اب ان علاقوں کو دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے سب سے پہلے تو نہریں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کاشتکاری کے لیے میٹھا پانی ہی میسر نہیں اور دوسرے ان جھیلوں میں سے اٹھنے والے آبی بخارات کی وجہ سے علاقے کی فضا میں پانی زیادہ مقدار میں موجود رہتا تھا اس لئے فصلوں اور دوسرے پودوں کے لئے آبپاشی کی ضرورت کم محسوس کی جاتی تھی۔ لیکن سیم کا پانی ختم ہونے پر علاقے کی فضا خشک ہو جانے سے ان علاقوں میں پانی کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے اور یوں آبپاشی کا دورانیہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔
5۔کیونکہ ملک کے طول و عرض میں موجود جھیلوں اور ندی نالوں میں اکٹھا ہونے والا یہ بارشی پانی ان علاقوں کے زمینی پانی (انڈر گراؤنڈ واٹر ٹیبل) کو ری چارج کرتے ہوئے ایک خاص گہرائی تک برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ہم نے پورے پاکستان میں سیم نالیاں نکال کر زمینی پانی کو ری چارج کرنے والے اس نظام کو ہی ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا اس لئے اب آنے والے وقت میں ٹیوب ویلوں کی بھر مار اور زمینی پانی کو ری چارج کرنے والے نظام کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال ہماری زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
6۔ دریاؤں میں آنے والے ہلکے سیلاب بھی ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالے گئے زمینی پانی کی سطح کو ایک خاص گہرائی تک برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے. پھر ان سیلابوں کے ساتھ بہہ کر آنے والی زرخیز مٹی بھی ہماری زمینوں کی طاقت بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی تھی۔سندھ طاس منصوبے کی وجہ سے پانی کی تقسیم اور بھارت کے غیر قانونی پانی چوری کی وجہ سے ہمارے آبی وسائل وقت کے ساتھ ساتھ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال کے زیر اثر ہمارے دریاؤں میں ہلکے سیلاب آنا رُک گئے ہیں۔جس بنا پر ہمارے زرعی علاقوں میں میٹھے زمینی پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے اور ہمارے کسانوں کو پانی کی بہم رسانی کے لیے اپنے ٹیوب ویلوں کے بور مزید گہرے کر کے پانی نکالنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے جو کہ آنے والے سالوںمیں زمینی پانی کی شدید قلت کا پیش خیمہ ہے۔
7۔موجودہ صورتحال میں انسانی آبادی کے بڑھنے سے ہر شعبہ زندگی میں پانی کا استعمال بےتحاشا بڑھ چکا ہے۔ دریائی پانی کی کمی کو ٹیوب ویل لگا کر پورا کیا جا رہا ہے. زمینی پانی کا ریچارج بہت کم اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکاسی آب زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی پانی کی سطح بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ ایک مشاہدے کے مطابق ضلع فیصل آباد میں پچھلے دس سال کے عرصے میں زمینی پانی کی سطح 55 فٹ تک گِر چکی ہے اور ریچارج نہ ہونے کی وجہ سے مزید گرتی جا رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں زمینی پانی ایک خاص گہرائی تک میٹھا ہے اس گہرائی سے نیچے پانی کڑوا ہے جو کہ انسانی استعمال کے ساتھ ساتھ زرعی آب پاشی کے لئے بھی ناقابل استعمال ہے. اس کی مثال فیصل آباد کا پیشتر علاقہ ہے جہاں ٹیوب ویل کے پانی کو نہری پانی سے ملا کر نہ لگایا جائے تو زمین خراب ہو جاتی ہے۔ جس کا عملی مشاہدہ بہت سارے علاقوں میں ہو چکا ہے۔ ایسی صورت حال سے نپٹنے کے لیے اگر فوری طور پر نئے ڈیم بنا کر پانی کی سٹوریج کپسٹی کو نہ بڑھایا گیا تو آنے والے سالوں میں ہماری زراعت نہری پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ زمینی پانی کی کمی سے بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
8۔ترقی یافتہ ممالک میں زمینی پانی بہت محدود پیمانے پر نکال کر استعمال کیا جا رہا ہےاور پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے بارشی پانی کے ساتھ ساتھ استعمال شدہ (ری سائیکلڈ واٹر) پانی کا استعمال زیادہ ہے وہ کہتے ہیں "زمینی پانی ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سنبھال رکھا ہے”. یاد رکھیے! اگر ہمارے ہاں بھی سیورج کا پانی صاف کر کے دوبارہ استعمال میں نہ لایا گیا اور مزید ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ بڑھائی گئی تو ہمارے ہاں زمینی پانی کے اس بے ہنگم استعمال کی بہت بڑی قیمت ہماری آنے والی نسلوں کو ادا کرنا پڑے گی۔
9. یاد رہے پانی کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پرانے زمانے میں انسانی آبادیا ں دریاوں کے کنارے بنائی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ آبادی بڑھی تو دریاوں سے دورچھوٹے چھوٹے گاوں آباد ہونے شروع ہوئے۔ نئےگاوں آباد کرتے وقت بھی پانی کی ضرورت کا خیال رکھا گیا اور ان کے ساتھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ایکڑوں پر محیط تالاب (پنڈ دے چھپڑ)بنائے گئے اور ان میں پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لئے نہری پانی مہیا کیا گیا۔ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تالاب صرف ڈھور ڈنگروں کو پانی پلانے کے لیے ہی نہیں تھے بلکہ یہ مقامی علاقے میں کنووں اور نلکوں کے ذریعے نکالے گئے زمینی پانی کو ری چارج کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے۔بد قسمتی سے انتظامیہ کی نااہلی اور مقامی لوگوں کی کم عقلی کی بناء پر گاوں کے یہ مقامی تالاب بھی وقت کے ساتھ ساتھ ناجائز تجاوزات کی وجہ سے ختم ہوتے جارہے ہیں جو کہ کسی المیے سے کم نہیں۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر پانی کی بہم رسانی کے لیے اہم اقدامات
1۔پانی کی بہم رسانی ہر شعبہ زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔لا محالہ ملک میں پانی کے مسائل سے نپٹنے کے لئے بغیر وقت ضائع کیے مناسب جگہوں پر بہت سارے چھوٹے بڑے ڈیم بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان میں جمع شدہ پانی زراعت کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی استعمال کیا جا سکے۔بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ہونے کے بعد سے اب تک دریاوں کا پانی جمع کرنے کے لئے سینکڑوں ڈیم بنا لئے لیکن ہم چند ڈیم بنانے تک محدود ہیں۔دورِ حاضر میں کالا باغ ڈیم پر کام شروع کر کے وقت پر مکمل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ آنے والے حالات سے نبردآزماہونے کے لئے وافر مقدار میں پانی کا ذخیرہ موجود ہواور اسے درپیش مسائل کے مطابق استعمال میں لایا جاسکے۔
2۔کیونکہ ملک کے طول و عرض میں کھودی گئی سیم نالیاں سطح زمین سے زیادہ گہری ہونے کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں کا پانی کھینچ رہی ہیں جس وجہ سے وقت کے ساتھ علاقے میں زمینی پانی کی سطح مزید گرتی جا رہی ہے. اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ملک کے طول و عرض میں کھودی گئی ان سیم نالیوں پر ریگولیٹری بند باندھنا ضروری ہے تاکہ ان سیم نالیوں میں پانی کی گہرائی کو بڑھا کر سطح زمین میں پانی کے دخول کو ممکن بنایا جاسکے اور یوں علاقے میں زمینی پانی کی گرتی ہوئی صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے۔ مزید براں ایساکرنے سے ان سیم نالیوں کو مچھلی کی افزئش کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
3۔ملک میں زرعی فصلوں کی کاشتکاری کے لئے سیلابی آبپاشی کو محدود کیا جائے اور اس کی جگہ ڈرپ ایریگیشن،پلاسٹک ملچنگ، نامیاتی ملچنگ،کھیتوں کے اندر نالیوں میں کاشتکاری اورمصنوعی بارش کے ذریعے پانی دینے والے دوسرے طریقوں کو اپنایا جائے تاکہ کم سے کم پانی استعمال کرتے ہوئے زرعی فصلیں اگائی جا سکیں۔
4۔سبزیوں کی کاشت کاری کیلئے ٹنل فارمنگ کا طریقہ اپناتے ہوئے پانی کی ضرورت کو محدود کیا جائے۔ جس پر کام ہورہا ہے اور اسے مزید بڑھانے پر توجہ دینا ضروری ہے۔
5۔ فی زمانہ ٹیوب ویل لگانے پر کوئی پابندی نہیں ۔ ہر کاشتکار بلا روک ٹوک زمینی پانی استعمال کر رہا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ زمینی پانی کے اخراج کو کم کرنے کے لئے بے جا ٹیوب ویل لگانے پر پابندی عائد کی جائے اور جہاں ضرورت محسوس ہو وہاںمقامی محکمہ ایریگیشن سے سولر یا انجن والے ٹیوب ویل لگانے کا ضروری اجازت نامہ حاصل کرنے کو اہمیت دی جائے تا کہ ٹیوب ویل لگانے کی بھر مار کو روکا جا سکے ۔
6۔زرعی شجرکاری کو منصوبہ بندی کے تحت پورے ملک میں رواج دینے پر زور دیا جائے اور اس سلسلے میں مختص کیے گئے فصلوں سے مطابقت رکھنے والے درخت لگانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ حکومت کی طرف سے مالی معاونت کی پیشکش کے ذریعے زرعی شجرکاری میں جدت لا کر ملک میں جنگلات کی کمی کا مسئلہ بہت آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے جو کہ ہماری زراعت کی بہتری ، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو زائل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
7۔ بارشی پانی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے جیسے جمع کر کے استعمال میں لانے کا رواج ہمارے ہاںنہ ہونے کے برابر ہے اس سلسلے میں موثر اقدامات کرتے ہوئے گھریلو استعمال کے پانی کی ضرورت کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے جس پر فوری اوربھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ زمینی پانی پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔
8۔ہمارے ہاں گھریلو پانی کا استعمال بلکہ زیاں بہت زیادہ ہے جس سے وقت کے ساتھ گندے پانی (سیوریج واٹر) کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم سیم نالیوں کے ذریعے اس گندے پانی کو صاف کیے بغیر دریا بُرد کر رہے ہیں جوہماری آبی حیات کے لئے نقصان دہ ہے۔ اگر اس گندے پانی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی نہ ڈالا جائے تو یہ پانی زراعت کے شعبے میں بہتر پیداوار لینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آب پاشی کے پانی کی بچت کےلئے اس متبادل ذریعہ آبپاشی پر بھی توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ پانی کے مسائل کومزید بے قابو ہونے سے بچایا جا سکے۔
9۔ پاکستان میں کارخانو ں سے نکلنے والا آلودہ پانی اور اس کی صفائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔کارخانے بھی کسی منصوبہ بندی یا کسی مخصوس علاقے میں نہیں لگائے گئے ۔غریب ملک ہونے کی وجہ سے حکومت بھی اس طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکتی۔ لامحالہ اس زہریلے پانی کو گھریلوں گندے پانی میں ملا کر دریا بُرد کرنے سے آبی حیات بُرے طریقے سے متاثر ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کا بہتر حل ان کارخانوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کو صاف کرنے کی ذمہ داری فیکٹری مالکان پر ڈالنے سے ہو سکتا ہے جیسا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں پہلے سے ہو رہا ہےتاکہ اس سلسلے میں کارخانہ مالک خود اقدامات کرتے ہوئے زہریلا پانی صاف کرنے کے بعد سیورج سسٹم میں ڈال سکے ۔ ایسے اقدامات سے فیکٹریوں کے زہریلے پانی سے پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
لمحہ فکریہ
لمحہ فکریہ
یادرہے سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہمارے دریاوں کا پانی حاصل کرنے کے بعد اب تک ہندوستان سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر لاکھوں کیوسک پانی جمع کر چکا ہے کیونکہ وہ ہمارا ازلی دشمن ملک ہے اس لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہ کسی وقت بھی اس جمع شدہ پانی کو سیلاب کی صورت میں تبدیل کر کے ہماری زراعت اور معیشت کو تباہی سے دوچار کر سکتا ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ پچھلے سالوں میں آنے والے سیلابوں کے دوران ستلج اور بیاس (جن کا پانی ہم پہلے ہی ہندوستان کو دے چکے)میں یک دم بڑی مقدار میں پانی چھوڑ کر پہلے ہی کر چکا ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ جنگ کرنے کی بجائے اگر ہندوستان چاہے تویک دم اپنے تمام ڈیموں کی در کھول کر پورے پاکستان کو بہا کر سمندر بُرد کر دے اور ہم ہیں کہ نیرو کی طرح سب ٹھیک ہے کی بانسری بجا رہے ہیں۔