ڈاکٹر خالد نعیم خواجہ، ڈاکٹر ایم اطہر عباس، ڈاکٹر عبدالسبحان
فاؤل ایڈینو وائرسز (FAdVs)، بغیر غلاف والے ڈی این وائرسز کا ایک گروپ ہے جو Adenoviridae سے تعلق رکھتا ہے، اسکی 12 تیار (Serotypes ہیں جن کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، FAdVs، کی شناخت پہلی بار 1950 اس وائرس کی دنیا کے مختلف حصوں میں پولٹری کا سبب بنتے رہے ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، اور جنوبی امریکہ خاص طور پر مختلف ممالک میں ہونے والی بیماری کے سبب، مرغیوں میں اس وائرس کی صورت میں درج ذیل مسائل پیدا ہو سکتے ہیں:
- برائلر مرغی میں FAdVs کی وجہ سے نشوونمامیں کمی، دل کے گرد پانی، اور مرنے کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
- بریڈر فلاک میں تولیدی مسائل اور انڈے کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے۔
- لیئر مرغیوں میں انڈے کی پیداوار میں کمی اور صحت کی خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔
ہائیڈرو پیری کارڈیم سنڈروم (HPS) یا انگارا ڈیزیز عام طور پر FAdV-4 کی وجہ سے ہوتا ہے ،Gizzard کی انفیکشن کی بنیادی وجہ FAdV-1 ہے۔البتہ دوسری کئی اقسام (FAdV-2، FAdV-8a یا FAdV-11 , FAdV-10 ,FAdV-8b ) کو جگر کی بیماری ( (IBHکے پھیلاؤ کا سبب گردانا جاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں IBH، کی اقسام,4,11 FAdV-2 کی علامات زیادہ تر 3-8 ہفتے کے برائلر اور بریڈر فلاک میں 2- 30 % اموات کے ساتھ رپورٹ ہوئے ہیں ۔ ایڈینو وائرسز کی عام طور پرHorizontal (ایک مرغی سے دوسری مرغی میں زیادہ تر قریبی رابطے یا آلودہ ماحول کے ذریعے ، جیسے کہ پانی، خوراک، یا فضلہ کے ذریعے) یا Vertical (جنیاتی طور پرمتاثرہ مرغی سےچوزوں میں) منتقلی ہوتی ہے۔ رانی کھیتNDV))، گمبورو وائرس (IBDV)، چکن انیمیا وائرس (CAV) اور بیکٹیریل بیماریوں کے FAdV سےامتزاج (Co-Infection)کی وجہ سے بیماری اور اموات میں %50تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں ہائیڈرو) HPS) کو پہلی بار 1987 میں انگارا گوٹھ، کراچی میں برائلر مرغیوں میں دیکھا گیا اور اسے "انگارا بیماری” کا نام دیا گیا جسکی بعد ازاں ایڈینو وائرس ٹائپ -4 کے نام سے شناخت کی گئی ۔ اس تحقیق کے نتیجہ میںPARC-1نامی سٹرین کو ہائیڈرو کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی ویکسین میں استعمال کیا گیا بعد ازاں اس ٹیکنالوجی کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا جہاں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) سے HPS ویکسین رجسٹر کرائی گئی۔ اس ضمن میں ایک ویکسین شیڈول بھی ترتیب دیا گیاجس کی مدد سے اس ویکسین کے باقاعدہ استعمال سے بالآخر 1992ءمیں ہائیڈرو پیری کارڈیم سنڈروم پر کا فی حدتک قابوپا لیا گیا جوکہ مختلف اداروں کے بہترین تعاون سے ممکن ہوا جس میں پی آر آئی – راولپنڈی ، این اے آر سی – اسلام آباد، وی آر آئی – لاہور، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز-لاہور، زرعی ایگریکلچر یونیورسٹی –فیصل آباد اور پی آر آئی –کراچی شامل ہیں۔ اسی دوران پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل(PARC)کے سائنسدانوں نے1995ء میں پہلی سیل کلچر ویکسین تیار کی جس کے باعث انفیکشن زدہ جگر کے استعمال سےویکسین کی تیاری کے طریقہ کارکو ختم کر دیا گیا تھا ۔بعد ازاںمختلف تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں HPSسے متعلقہ تحقیقات جاری رہیں اور اس تحقیق کے نتائج مروجہ طریقہ کار کے مطابق مراسلوں کی شکل میں مختلف ریسرچ میگزین میں چھاپے جاتے رہے۔ان مقالہ جات میں درج ذیل نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے:
• FAdV-4 کے PARC-1 نامی نئے فاؤل ایڈینو وائرس کی شناخت کی گئی جو پاکستان میں ہائڈروپرکارڈیم سنڈروم (HPS) کا سبب بنتا ہے۔ اس وائرس کی خصوصیات، ساخت اور بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے متاثرہ پرندوں پر اثرات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
• ہائڈروپرکارڈیم سنڈروم ایک سنگین بیماری ہے جس میں دل کے ارد گرد سیال جمع ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مرغیوں کی موت ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کی علامات میں جگر اور دل کی سوجن، سانس کی مشکلات، اور کمزور جسمانی حالت شامل ہیں۔
• وائرس کی تشخیص اور ٹائپنگ کی خاطر وائرل کلچر، پی سی،آر اور بائیوٹیکنالوجی کے دیگرطریقہ کار کو استعمال کیاگیا ۔
• تحقیق نے یہ ظاہر کیا کہ وائرس کے پھیلاؤ کوروکنے اور کنٹرول کرنے کے لیے متعلقہ ٹائپ کی ویکسین کا استعمال اور مدافعتی ٹائٹرکا جائزہ لینا ضروری ہے، بعد ازاں مختلف تحقیقات کی روشنی میں FAdV-4 & 8 کی موجودگی ثابت کی جا چکی ہے جس کی ویکسین بھی بریڈر فلاکس میں استعمال کی جا رہی ہے۔
درج بالا مقالہ جات FAdVs کی موجودہ تفہیم میں اضافہ کرتےہیں اور خاص طور پر پاکستان میں ہائڈروپیری کارڈیم سنڈروم کی تحقیق اور کنٹرول کے لیے اہم معلومات بھی فراہم کرتےہے۔ پچھلے چند سالوںمیں FAdV کی چند نئی اقسام کی موجودگی رپورٹ کی گئی جن میں FAdV-2اور FAdV-11 قابل ذکر ہیں۔اس سلسلے میں PCR کی تکنیک کو استعمال کرکے FAdVکی کسی بھی قسم کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ FAdV-2+11 کے موجودہ سٹرین کی انفیکشن سے بالعموم جگر اور گردوں کی خرابیاں دیکھی گئی ہیں جو IBH Inclusion Body Hepatitis )) اور دیگر وائرس یا بیکٹیریا انفیکشن کے ہمراہ زیادہ پیچیدہ صوورت اختیار کر لیتی ہے۔ چونکہ کوئی ایک ٹائپ کی ویکسین دوسری ٹائپ کے FAdVs کے خلاف کراس پروٹیکشن مہیا نہیں کر تی اس لیے مطلوبہ ویکسین استعمال کرنے سے پہلے فیلڈ میں پائی جانے والی FAdVsکا جاننا بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں لوکل پیمانے پر FadVs کی چاروں اقسام بشمول11،8،4،2 کی ویکسین تیار کرنے کی سہولت میسر ہونے کے سبب متعلقہ ویکسین کے استعمال سے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ آجکل مرغیوں میں ویکسین کی افادیت جانچنے کیلئےایلائزا ELISA نامی ٹیسٹ کرایا جا سکتا ہے جو کہ FAdVs کے خلاف پرندے کے خون میں مدافعت جانچنے کا مستند طریقہ کا رہے۔ FAdVکی تمام اقسام میں اس بات کی اہلیت ہوتی ہے کہ وہ بغیر علامات ظاہر کیے مرغیوں کے خلیات میں ایک خاص عرصے کیلئے قیام پزید ہو سکیں البتہ کسی دباؤ (Stress) کی صورت میں وائرس دوبارہ بڑھوتری کا عمل شروع کر سکتا ہےجیسے بریڈر میں پروڈکشن کے آغاز میں یا گمبورو یا چکن انیمیا وائرس کی بیماری کی صورت میں ۔اسی طرح برائلر میں پہلے دس یوم کے گروتھ سٹریس میں بھی FAdVs کےانفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔
اب تک FAdVs پرتمام تر تحقیق جو پاکستان میں مختلف وقتوں پر پولٹری فارموں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں کے جینیاتی تجزیے اور سیروٹائپس کی شناخت یہ بتاتی ہےکہ ان وائرسز کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایڈینو وائرسزکے متعلقہ سٹیرین کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنےوالی ویکسین کا انتخاب اور ویکسین کے ٹائٹر کی مانیٹرنگ ، بائیو سیکیورٹی کے اقدامات، بروقت تشخیص اوربمطابق علامات علاج((Symptomatic Treatment سےبڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
اسی سبب سے آجکل بریڈر فلاک میں ریئرنگ کے دوران FAdV کی ٹائپ 2 + 11 اور ٹائپ4 + 8 کی ویکسین کے دو، دو شاٹ لگائے جاتے ہیں جبکہ زیادہ متاثرہ علاقوں میں پرڈکشن سے 2 ہفتے قبل 2 + 11ٹائپ ویکسین کا فائنل شاٹ بھی تجویز کیاجاتا ہے۔ اس کے ساتھ پروڈکشن سے پہلے پرندوں کے خون میں پائے جانے والے مدافعتی ٹائٹرکا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔اسی طرح بیماری سے متاثرہ علاقوں میں برائلر چوزوں میں 3-4 یوم کی عمر میں FadV کی ٹائپ2 + 11ویکسین کا ایک ٹیکہ لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
امید کی جا سکتی ہےکہ بہتر بائیوسیکیورٹی پلان، برائلراور بریڈر میں بہتر ویکسین شیڈول کے استعمال سے ماضی کی طرح ایڈینو وائرسز کی موجودہ پائی جانے والی اقسام پر بھی بروقت قابو پا لیا جائے گا۔