پاکستان کا ضائع ہوتا خزانہ: پتے، شاخیں اور اربوں روپے کی بایوماس انڈسٹری

قدرت کا ضائع ہوتا سرمایہ: پتے، شاخیں اور خوشبوؤں کی اربوں روپے کی انڈسٹری
{"prompt”:””A visually rich image showing natural leaves, branches, and aromatic plants being processed into perfumes, essential oils, and herbal products. The composition includes green forests, scattered leaves, aromatic flowers, and glass bottles filled with natural oils and fragrances. The background reflects the idea of nature’s hidden wealth turning into a billion-rupee fragrance industry. The tone is eco-friendly, warm, and inspiring — representing sustainability, nature, and industry together.””,”originalPrompt”:””A visually rich image showing natural leaves, branches, and aromatic plants being processed into perfumes, essential oils, and herbal products. The composition includes green forests, scattered leaves, aromatic flowers, and glass bottles filled with natural oils and fragrances. The background reflects the idea of nature’s hidden wealth turning into a billion-rupee fragrance industry. The tone is eco-friendly, warm, and inspiring — representing sustainability, nature, and industry together.””,”width”:1024,”height”:576,”seed”:42,”model”:”flux”,”enhance”:false,”nologo”:true,”negative_prompt”:”undefined”,”nofeed”:false,”safe”:false,”quality”:”medium”,”image”:[],”transparent”:false,”isMature”:false,”isChild”:false,”trackingData”:{"actualModel”:”flux”,”usage”:{"candidatesTokenCount”:1,”totalTokenCount”:1}}}

پاکستان میں ہر سال ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں شہروں اور دیہاتوں میں درختوں کی چھانٹ کانٹ کے دوران کروڑوں من پتے اور شاخیں ضائع کر دی جاتی ہیں۔ یہ قیمتی بایوماس عموماً جلانے یا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے، حالانکہ اگر اس کی بہتر مینجمنٹ کی جائے تو یہی فضلہ پاکستان کے لیے اربوں روپے کی انڈسٹری بن سکتا ہے۔

قدرتی وسائل جو ہم ضائع کر رہے ہیں

پاکستان کے تقریباً ہر خطے میں نیم، سفیدہ (Eucalyptus)، بیری، کیکر، پیپل، برگد، شہتوت، املتاس، دودھ شیرا اور سمبل جیسے درخت پائے جاتے ہیں۔ ان کے پتے اور شاخیں وہ خام مال ہیں جن سے دنیا بھر میں Essential Oils اور Extracts تیار کیے جاتے ہیں۔ یہی تیل خوشبوؤں، کاسمیٹکس، ادویات اور زرعی بایو پیسٹی سائیڈز میں استعمال ہوتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کا تقابلی جائزہ

اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان نے 2023 میں صرف 4.68 ملین ڈالر کے Essential Oils برآمد کیے جبکہ 14.2 ملین ڈالر کے Essential Oils درآمد کیے — یعنی تقریباً چار ارب روپے سالانہ کا خسارہ۔
اس کے برعکس بھارت نے 657 ملین ڈالر کے آئلز برآمد کیے اور عالمی مارکیٹ میں تقریباً 12 فیصد حصہ حاصل کیا۔ صرف منٹھول آئل میں بھارت دنیا کی سپلائی کا 31 فیصد کنٹرول کرتا ہے۔
یہ فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت نے وہ وسائل انڈسٹری بنا لیے جنہیں ہم ہر سال ضائع کر دیتے ہیں۔

پاکستان کے لیے ممکنہ مواقع

اگر مناسب مینجمنٹ اور پالیسی سپورٹ ہو تو پاکستان نہ صرف اپنی درآمدات میں سالانہ 2 سے 3 ارب روپے کی بچت کر سکتا ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے 1 سے 2 ارب روپے اضافی بھی کما سکتا ہے۔

مثال کے طور پر:

سفیدہ کے پتّے ایک من سے اوسطاً 300–400 گرام آئل دیتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو 900 سے 2400 روپے بنتی ہے۔

اگر صرف لاہور یا فیصل آباد جیسے ایک شہر میں سالانہ 50 ہزار من سفیدہ کے پتے جمع کیے جائیں تو ان سے 15–20 ٹن آئل حاصل کیا جا سکتا ہے، جس کی مالیت 2.5 سے 5 کروڑ روپے سالانہ ہوگی۔

اسی طرح نیم کے بیج زرعی اسپرے اور دواؤں کے لیے، بیری کے پتے کاسمیٹکس میں، شہتوت کے پتے شوگر کنٹرول قہووں میں، اور املتاس کے پتے جلدی امراض کے علاج میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری امکانات

یہ صنعت صرف بڑی کمپنیوں کے لیے نہیں بلکہ عام کسانوں اور نوجوانوں کے لیے بھی کاروباری مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

ایک 20–100 لیٹر ڈسٹلیشن یونٹ کی لاگت تقریباً 3 سے 5 لاکھ روپے ہے جو روزانہ 2–5 من پتّے پروسیس کر کے 5 سے 15 ہزار روپے تک آمدنی دے سکتا ہے۔

درمیانے یونٹس (10–15 لاکھ روپے) سے 40 سے 80 ہزار روپے یومیہ کمائے جا سکتے ہیں۔

جبکہ بڑے صنعتی پلانٹس (80 لاکھ سے 1 کروڑ تک) سے 2 سے 5 لاکھ روپے یومیہ آمدنی ممکن ہے۔

اگر یہ پلانٹس بین الاقوامی سرٹیفکیشنز جیسے ISO, GMP, HACCP, REACH, FDA, Halal، اور Organic حاصل کریں تو پاکستانی آئلز عالمی مارکیٹ میں زیادہ قیمت پر فروخت ہو سکتے ہیں — یہی وہ فرق ہے جس نے بھارت کو عالمی سطح پر برتری دلائی۔

عالمی طلب میں اضافہ اور مواقع

دنیا بھر میں قدرتی اور آرگینک آئلز کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

نیم آئل اور سِٹریس آئل مچھر بھگانے والی کریمز اور اسپرے میں،

سفیدہ آئل انہیلر اور ویپر رب میں،

جبکہ پودینہ آئل منٹھول، ٹوتھ پیسٹ اور ادویات میں استعمال ہوتا ہے

یہ تمام وسائل پاکستان میں مفت ضائع ہو رہے ہیں، حالانکہ یہی ملک کے لیے نفع بخش اثاثہ بن سکتے ہیں۔

پالیسی سپورٹ کی ضرورت

یہ انڈسٹری ایک طرف سرمایہ کاروں کے لیے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر منافع بخش مواقع فراہم کرتی ہے، اور دوسری طرف حکومت کے لیے درآمدی بل میں کمی اور برآمدی آمدنی میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔
اگر حکومت، محکمہ جنگلات، ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور بینک مل کر آسان قرضے اور پالیسی سپورٹ فراہم کریں تو پاکستان اس شعبے میں بھارت جیسے ممالک سے مسابقت کر سکتا ہے۔

نتیجہ

یہ صرف معیشت کا موقع نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ، روزگار کے مواقع، اور پائیدار ترقی کی سمت ایک اہم قدم ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے درختوں اور پتّوں کو آگ کے دھوئیں میں جلانے کے بجائے انہیں قیمتی سرمایہ بنائیں۔