کینولا کی کاشت

کینو لاکی کاشت…

پاکستان کو ملکی خوردنی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہر سال کثیر زرِ مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ہم اپنی ملکی ضروریات کا صرف 12 فیصد خوردنی تیل خودپیدا کرتے ہیں جبکہ88 فیصددرآمد کرنا پڑتا ہے جو کہ ملکی معیشت پر ایک بوجھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کر کے ملکی درآمدی بل میں کمی لائی جائے۔

 حکومت پنجاب تیلدار اجناس کی کاشت کے فروغ کیلئے5ارب 11 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے جاری قومی منصوبہ پر عملدرآمد کر رہی ہے۔اس قومی منصوبہ کے تحت کاشتکاروں کو تیلدار اجناس خصوصاً کینولا، سورج مکھی اور تل کے زیرِ کاشت رقبہ اورپیداوار میں اضافہ کیلئے مختلف ترغیبات فراہم کی جا رہی ہیں۔اس ضمن میں امسال کینولہ کے کاشت پر5 ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ امسال کینولہ کے نمائشی پلاٹوں کی کاشت کیلئے کاشتکاروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں جس کے اخراجات کیلئے زیادہ سے زیادہ 20 ہزار فی ایکڑ ادا کیے جائیں گے۔ کاشتکاروں میں صحتمندانہ مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے کینولا کے پیداواری مقابلوں کا بھی انعقاد ضلعی و صوبائی سطح پر کیا گیا ہے اور جیتنے والے کاشتکاروں کو لاکھوں روپے کے نقد انعامات دئیے جائیں گے۔

 کینولا یا میٹھی سرسوں، سرسوں کی ایسی قسم ہے جس کے تیل کا معیار عام طور پر اگائی جانے والی سرسوں سے بہت بہتر ہے اگر رایا، عام سرسوں اور توریا کی بجائے کینولا کاشت کیا جائے توخوردنی تیل کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ کینولا کی پیداوار اور تیل کا معیار عام سرسوں کی نسبت بہت اچھا ہے۔

کینولا کی محکمہ زراعت پنجاب کی منظور شدہ اقسام میں ٹی ایم کینولا،رچنا کینولا،خانپور کینولا،بارانی کینولا،ساندل کینولا اورسپر کینولاشامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینولا کی ہائبرڈ اقسام بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔کینولا کا وقت کاشت ماہ اکتوبر کے آخر تک ہے۔کینولا کی کاشت کے لئے2کلوگرام بیج فی ایکڑ استعمال کرنا چاہئے۔ کینولا کوکلراٹھی اور سیم زدہ زمینوں کے علاوہ ہر قسم کی زمین پر باآسانی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

 کاشت سے پہلے زمین کی اچھی تیاری کرنی چاہئے۔ بہتر اگاؤ کے لئے اگر وافر پانی میسر ہو تو دوہری راؤنی کر یں اس سے جڑی بوٹیاں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔وریال زمین کی تیاری کے لیے 2سے 3دفعہ ہل چلا کر 2دفعہ سہاگہ دیں۔دیگر فصلات کی برداشت کے بعد زمین تیار کرتے وقت 3سے 4دفعہ ہل چلا کر 2دفعہ سہاگہ دیں جبکہ بارانی علاقہ جات میں زمین کی تیاری اور وتر کی سنبھال کے لیے 2سے 3دفعہ ہل چلا کر 2دفعہ سہاگہ دیں۔کینولا کی بہتر پیداوارکے حصول کے لیے ترجیحاً قطاروں میں ڈرل کے ذریعے کاشت کریں اور قطاروں کا آپس میں فاصلہ ڈیڑھ فٹ رکھیں۔

کینولا کو تروتر میں بذریعہ پور یا ڈرل کاشت کریں۔ کینولا کو چھٹہ کے ذریعہ بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔ کینولا کی ڈھلوان کھیت میں کاشت کے لیے رجر کے ساتھ وٹ بندی کرکے وٹوں کا درمیانی فاصلہ ڈیڑھ فٹ رکھیں اور کینولا کو خشک زمین میں وٹ بندی کرکے کاشت کرنے کے لیے بیج کو گیلی بوری میں 8گھنٹے تک رکھنے کے بعد کاشت کریں۔

ایک بوری یوریا، ایک بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ فی ایکڑ استعمال کریں۔آبپاش علاقوں میں ڈی اے پی اور پوٹاشیم سلفیٹ کی پوری مقدا ر زمین تیار کرتے وقت اور یوریا کی آدھی مقدار پہلے پانی پر اور باقی مقدار پھول نکلتے وقت پانی کے ساتھ ڈالیں جبکہ پھول نکلتے وقت 10 کلو گرام فی ایکٹر سلفر کا محلول بنا کر آبپاشی کے ساتھ دینے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتاہے۔کینولا کی فصل کو کم از کم 3 پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پہلا پانی فصل اگنے کے20سے25 دن بعد، دوسرا پانی پھول نکلتے وقت اور تیسرا پانی بیج بنتے وقت دیں۔جب پودے 4 پتے نکال لیں تو کمزور پودے اکھاڑ کر پودوں کا درمیانی فاصلہ9سے 15سینٹی میٹر تک کر دیں۔ پودوں کی چھدرائی پہلا پانی لگانے سے پہلے ہر صورت مکمل کریں۔ فصل کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تلفی ضروری ہے۔ جڑی بوٹیوں کو کیمیائی اور غیر کیمیائی دونوں طریقوں سے تلف کیا جا سکتا ہے۔ 

کینولا کی فصل پر حملہ آور ہونے والی بیماریوں میں وبائی جھلساؤ، سفید کنگی، سفوفی پھپھوندی، تنے کا گلنا یا جھلساؤاور سرسوں کا جراثیمی جھلساؤ شامل ہیں۔ بیماریوں کے حملہ کی صورت میں محکمہ زراعت کے مقامی عملہ کے مشورہ سے اقدامات کریں۔کینولا کی فصل پر حملہ آور ہونے والے ضرررساں کیڑوں میں سرسوں کی آرادار مکھی، مولی بگ، سرسوں کا سست تیلا اور گوبھی کی تتلی شامل ہیں۔ کاشتکار کینولا کی فصل پر ضرررساں کیڑوں کے حملہ کی صورت میں محکمہ زراعت کے مقامی عملہ کے مشورہ سے کیمیائی انسداد کریں۔