دیہی خواتین کے انکم سپورٹ پروگرام کی بندش، مرغی پال اسکیم بجٹ سے غائب

پنجاب اور وفاقی حکومت دونوں نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں مرغی پال (بیک یارڈ پولٹری) اسکیم کے لیے کسی قسم کی فنڈنگ مختص نہیں کی، جس سے دیہی خواتین اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے خود انحصاری کا یہ مؤثر ذریعہ ختم کر دیا گیا ہے۔

📄 مزید پڑھیں: پولٹری سیکٹر میں ڈیٹا ریکارڈز آفیسر کی نوکری

سرکاری ذرائع کے مطابق، پنجاب حکومت نے اس اسکیم کی دوبارہ منظوری کی سمری کو باضابطہ طور پر ابھی تک منظور نہیں کیا، جبکہ وفاقی سطح پر بھی اس پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بجٹ فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی معمول کی سرگرمیاں موجودہ وسائل کے تحت جاری رکھیں، لیکن کسی قسم کی اضافی مالی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔

"مرغی پال اسکیم” کا آغاز 2019 میں ہوا، جس کے تحت صرف پنجاب میں تقریباً 33 لاکھ مرغیاں مستحق خواتین اور کاشتکاروں میں تقسیم کی گئیں۔ ہر یونٹ میں پانچ انڈے دینے والی مرغیاں اور ایک مرغا شامل ہوتا تھا، جس سے گھریلو سطح پر انڈوں اور گوشت کی دستیابی ممکن ہوئی، اور درجنوں دیہی گھرانوں نے اسے آمدنی کا مستقل ذریعہ بنایا۔

گزشتہ تین سال میں تقریباً 15 لاکھ سے زائد افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا۔

ضلع خوشاب سے تعلق رکھنے والی رابعہ بی بی، جنہوں نے 2021 میں مرغی پال اسکیم کے تحت یونٹ حاصل کیا تھا، نے بتایا:
"میرے بچوں کو روز انڈے ملتے ہیں، اور مہینے میں کئی بار دیسی گوشت بھی۔ اگر یہ اسکیم دوبارہ شروع نہ ہوئی تو غریب عورتوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہو گا۔”

📢 پولٹری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (PRI) راولپنڈی کا مؤقف:

"یہ تاثر درست نہیں کہ اسکیم مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔ تمام سرگرمیاں موجودہ (ریگولر) بجٹ کے ساتھ جاری ہیں، اور ایک معقول تعداد میں پرندے عوام کے لیے دستیاب ہیں۔”

یہ مؤقف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگرچہ اسکیم کو باضابطہ فنڈنگ حاصل نہیں، تاہم PRI اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوام کی ضروریات پر پوری کی جا سکیں۔

ماہرین کے مطابق، بیک یارڈ پولٹری جیسے منصوبے دیہی معیشت میں خوشحالی، خواتین کی خود کفالت، اور گھریلو سطح پر غذائی تحفظ کو فروغ دیتے ہیں۔ تاہم، بجٹ میں اسکیم کا اخراج ایسے پراجیکٹس کو شدید دھچکہ پہنچاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مستقبل میں اس اسکیم کو دوبارہ فعال کرنا چاہتی ہے تو بایوسیکیورٹی، ویکسینیشن، اور بیماریوں کے کنٹرول جیسے پہلوؤں کو بھی ترجیح دینا ہوگی تاکہ اس کے اثرات پائیدار اور محفوظ ہوں۔