سیچوان صوبہ میں کمیونٹی فارمنگ اور یُو شِن ساؤ کی کاشت

تحریر: محمد نعیم ظفر

(سینئر اسکالر، ساؤتھ ویسٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میانیانگ چنگدو)

سیچوان صوبہ میں کمیونٹی فارمنگ اور یُو شِن ساؤ کی کاشت

جنوب مغربی چین کے چار صوبے ہیں جن میں سیچوان، یونان، گوئیژو اور چونگ کنگ شامل ہیں۔ ہمارا مطالعہ سیچوان صوبے کے ایک دیہات میں کیا گیا جہاں ڈپٹی میئر لن ژاؤ نے کمیونٹی فارمنگ، ٹیکنالوجی کے استعمال اور دیہی ترقی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ اس سے قبل پروفیسر وانگ نے یہاں کے کسانوں کو فرٹیگیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کروایا تھا جس میں کھاد اور پانی کو ایک ساتھ اسپرنکلر نظام کے ذریعے کھیتوں میں چھڑکا جاتا ہے۔

 پانی قریبی دریا سے پمپ کے ذریعے کھینچا جاتا ہے اور چونکہ یہاں زمین کے ٹکڑے چھوٹے اور بکھرے ہوئے ہیں اس لیے بڑے زرعی مشینری کا استعمال ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظام کسانوں کے لیے سب سے مؤثر اور موزوں قرار پایا ہے۔ کٹائی کے لیے ٹریکٹر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ کھیتوں کے اندر چھوٹی نہریں اور کھالیاں کھودی گئی ہیں تاکہ بارش کا زائد پانی بہا کر فصل کو نقصان سے بچایا جا سکے۔

اس دیہات میں ایک زرعی سروس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے جو کسانوں کو نئی معلومات اور جدید طریقے فراہم کرتا ہے۔ یہ مرکز کسانوں کے لیے تربیتی نشستوں اور عملی مظاہروں کے ذریعے زرعی بہتری کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس اسٹیشن کے قیام نے مقامی کمیونٹی کو جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کر کے دیہی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

پانچ سال قبل یہاں کے کسانوں کی اوسط آمدنی تقریباً 20 ہزار یوان (یعنی آٹھ لاکھ پاکستانی روپے) تھی جو آج جدید طریقوں کے استعمال سے بڑھ کر 40 ہزار یوان (یعنی سولہ لاکھ پاکستانی روپے) ہو گئی ہے۔ ڈپٹی میئر لن ژاؤ نے خود بتایا کہ ان کا خاندانی فارم ابتدا میں پائیدار نہیں تھا، مگر انہوں نے چار سال تک رضاکارانہ طور پر کام کیا اور پھر اپنی مہارت کی بنیاد پر کمیونٹی کے نمائندہ منتخب ہوئے۔ ان کی قیادت نے کسانوں کو اعتماد دیا اور نئی سمت دکھائی۔

 

یُو شِن ساؤ ایک ایسی طبی سبزی ہے جس نے اس علاقے کے معاشی حالات بدل دیے ہیں۔ اس کی کاشت جنوری اور فروری میں کی جاتی ہے جبکہ نومبر اور دسمبر میں اس کی کٹائی ہوتی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار چار سے پانچ ہزار کلوگرام ہے اور مارکیٹ میں اس کی قیمت چار یوان فی کلو (یعنی 160 روپے فی کلو) ہے۔ فی ایکڑ لاگت چھ ہزار سے دس ہزار یوان (تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار سے چار لاکھ روپے) تک آتی ہے۔ یہ سبزی دو سے تین سال لگاتار کاشت کی جا سکتی ہے لیکن اس کے بعد فصل کی گردش لازمی ہے۔ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہر دو ہفتے بعد دوائیاں استعمال کی جاتی ہیں۔

اس فصل کے تین حصے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تازہ پتے چینی اسپرنگ فیسٹیول پر سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں اور ان سے فی ایکڑ بیس سے تیس ہزار یوان (یعنی آٹھ سے بارہ لاکھ روپے) تک آمدنی ہوتی ہے۔ جڑیں سبزی اور دوا دونوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور ان کی آمدنی تقریباً چالیس ہزار یوان (یعنی سولہ لاکھ روپے) ہے۔ خشک پتے روایتی طب میں استعمال ہوتے ہیں اور ان سے تین ہزار یوان (یعنی ایک لاکھ بیس ہزار روپے) حاصل ہوتے ہیں۔

اس طرح کل آمدنی فی ایکڑ تریسٹھ ہزار سے تہتر ہزار یوان (یعنی پچیس لاکھ بیس ہزار سے انتیس لاکھ بیس ہزار روپے) تک پہنچ جاتی ہے۔ اخراجات منہا کرنے کے بعد خالص منافع تقریباً ترپن ہزار سے سڑسٹھ ہزار یوان (یعنی اکیس سے ستائیس لاکھ روپے) فی ایکڑ رہتا ہے۔

یُو شِن ساؤ کی طبّی اہمیت بھی نہایت قابلِ ذکر ہے۔ یہ بخار، نزلہ زکام اور کھانسی کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، قوت مدافعت کو مضبوط بناتی ہے اور عمومی صحت کے لیے مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ صرف ایک منافع بخش زرعی پیداوار ہے بلکہ ایک طبّی لحاظ سے قیمتی سبزی بھی ہے۔

یہ واضح ہو گیا ہے کہ جدید فرٹیگیشن ٹیکنالوجی، اسپرنکلر آبپاشی اور کمیونٹی سروس اسٹیشن کے ذریعے کسانوں کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ممکن ہوا ہے۔ یُو شِن ساؤ کی کاشت اپنی کثیر الجہتی افادیت اور بازار میں مانگ کی وجہ سے ایک بہترین ماڈل ہے جسے دیگر دیہی علاقوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اس ماڈل میں نہ صرف زرعی ترقی بلکہ دیہی کمیونٹی کی اجتماعی بہتری اور پائیدار معیشت کا نقشہ بھی موجود ہے