ڈاکٹر الطاف حسین سندھو(Ph.D.)
ڈپٹی ڈائریکٹر لائیوسٹاک تحصیل کامونکی ضلع گوجرانوالہ
ڈپٹی ڈائریکٹر لائیوسٹاک تحصیل کامونکی ضلع گوجرانوالہ
اس بیماری کو پھیلانے میں کئی قسم کے چیچڑکردار ادا کرتے ہیں جن میں سب سے اہم ہائیالوما قسم (جینس) کے چیچڑ سب زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں ہونے والی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ ایک چیچڑ کی زندگی کے زیادہ تر چار (4) مختلف مراحل ہوتے ہیں ۔سب سے پہلے انڈہ جس سے لاروا نکلتا ہے اس کے بعد نمف بنتا ہے اور آخر میں بالغ چیچڑ۔ہائیالوما جینس کے چیچڑ لاروا، نمف اور بالغ تینوں مراحل مختلف جانوروں پر مکمل کرتے ہیں۔مثال کے طور پر زمین پر پڑے انڈے سے لاروا نکلا تو وہ رینگ کر ایک جانور پر چمٹے گااور خون چوس کر اپنی خوراک لے گا۔وہاں سے جب اس نے مولٹ ہوکر نمف بننا ہے اور اگلی سٹیج پر جانا ہے تو اس سے پہلے اتر کردوسرے جانور کو چمٹے گا۔ یہاں پر دھیان میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ جس جانور پر لاروا چمٹ کر خون چوس رہا تھا اگر اس جانور کے خون میں تھیلیریا کا جرثومہ ہوا تو وہ لاروا کے اندر منتقل ہوجائے گا اور جب وہ لاروا دوسرے جانور پر چمٹ کر خون چوسے گا تو وہاں بیماری دوسرے تندرست جانور میں منتقل کردے گا یاد رہے کہ چیچڑوں کے لاروےعام آنکھ سے نظر نہیں آتے۔
لاروا جانوروں کے چھوٹے بچوں اور جانوروں میں رہنے والے پرندوں، خرگوش، چوہوں اور گلہریوں وغیرہ پر 26 دن چمٹا رہتا ہے۔ اس کے بعد اسی جانور یا دوسرے جانور پر جاکر اگلی سٹیج یعنی نمف بنتا ہے۔چیچڑوں کا نمف بھی بہت چھوٹا ہوتا ہے جسے بمشکل ہی دیکھا جاسکتا ہے۔چیچڑوں کی نمف سٹیج دو سے تین ہفتوں تک ہوتی ہے اس کے بعد یہ زمین پر گر کرمولٹ ہوتا ہے اور بالغ چیچڑ بن جاتا ہے جو کہ بڑے جانوروں پر چمٹ کر اپنی خوراک لیتی ہے(اہم بات یہ ہے کہ بیماری پھیلانے میں نر بہت کم اور مادہ بہت زیادہ اور اہم کردار ادا کرتی ہے ) اور آخر میں 15 سے 16 دن تک خون چوس کرجانور سے نیچے گر کر انڈے دیتی ہے اور مر جاتی ہے۔علاوہ ازیں مکھی اور مچھر کے کاٹنے سے اور ٹیکے والی سوئی لگانے سے اس بیماری کے پھیلاؤ پر مکمل ریسرچ ہونا باقی ہے۔
خون کے سفید خلیے: تھیلیریا کا جرثومہ جو کہ خون میں رہتا ہے اور خون کا طفیلیہ ہےیہ جرثومہ خون میں شامل ہوتے ہی خون کے سفید خلیوں یعنی لمفوسائیٹس میں داخل ہوتا ہے اور ان کے نیوکلئس کو ہائی جیک کر لیتا ہے اور ان خلیوں یعنی لمفوسائٹس کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک سے دو میں تقسیم ہوکر اپنی تعداد کو کئی گنا بڑھا لیں اسی کے ساتھ ساتھ تھیلیریا غیر جنسی تولیدی عمل کے ذریعے نئے جرثومے پیدا کرکے نئے بننے والے خون کے سفید خلیوں میں داخل کرتا جاتا ہے جس سے خون کے سفید خلیے تعداد میں نارمل سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ کینسر میں بڑھے ہوتے ہیں تھیلیریا بیماری کے نقطہ عروج پر خون کے سفید خلیے بہت بڑی تعداد میں بڑھ جاتے ہیں اور لمفوسائیٹس جن کی تعداد بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ان لمفوسائٹس کی کاکردگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے جس سے جانور کی قوتِ مدافعت بہت زیادہ کم ہوجاتی ہے اور پھر دوسری بیماریاں جیسا کہ منہ کھر اور لمپی سکن اور کئی دوسری بیماریوں کا حملہ آسانی سے ہوتا ہے۔

Bovine Ephemeral Fever Vaccine K-KB
Effective Immunity to cattle against Bovine Ephemeral Fever
اوپر ذکر کی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے جسم کے اندر موجود تمام تھیلیوں میں پانی بھرجاتا ہے(کیونکہ خون بتلا ہوچکا ہوتا ہے) خاص طور پر پھیپھڑوں میں پانی بھرجاتا ہے پھیپھڑے سوج جاتے ہیں۔جس سے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور جسے عام طور پر نمونیا یا گل گھوٹو سمجھ لیا جاتا ہے۔ جگر متاًثر ہوتا ہے جانور کو یرقان ہوجاتا ہے جس کو آنکھوں کی پیلی جھلی (جو کہ عام طور پر سفید ہوتی ہے) کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیٹ کی جھلی جس کو پنجابی میں پلُو کہتے ہیں اس میں سوراخ ہوجاتے ہیں گردوں پر گوبھی کے پھول جیسے ابھار بن کر ان کو کینسر نما کردیتے ہیں۔ خون کی کمی کی وجہ سے پہلے جانور کو قبض ہوتی ہے اسکے بعد گوبر پتلا ہوکر ڈائریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔اور یہ ڈائریا عام دوائیوں سے کنٹرول نہیں ہوتا۔
جانوروں کو 104 سے 105 ڈگری فارن ہائیٹ بخار ہوتا ہے جو عام دوائی سے وقتی طور پر کم ہوکر دوبارہ زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر بار بار عام دوائیوں کا استعمال کریں تو جانور کا بخار اتر جاتا ہے اور چارہ بھی کھانے لگتا ہے لیکن دن بدن کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہےکامونکی اور گردو نواح میں جانوروں کی اکثریت میں بخار کی علامات نہیں ملتیں کیونکہ کئی ایک جانور ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو سال چھ ماہ پہلے بخار ہوتا ہے جو کہ عام دوائیوں کے جگاڑ سے کنٹرول کیا جاچکا ہوتا ہے اور فارمر حضرات کی اکثریت اس کو بھول چکی ہوتی ہے چونکہ ایسی صورت میں جانور تھوڑا بہت چارہ کھا رہا ہوتا ہے اور تھوڑی سا دودھ بھی دے رہا ہوتا ہے تو اگر میرے جیسا بندہ فارمر کو کہے کہ اس کو تھیلیریا ہے اس کا علاج کروا لیں تو فامر آگے سے لڑنا شروع کردیتا ہے اسی لئے میں نے اس بیماری کا نام "سائیلنٹ کلر” رکھا ہے جو کہ "مدر آف آل ادھر ڈیزیز” ہے لہٰذا ایک اچھا ویٹرنیرین ہونے نے ناطے ایسے جانور کی سال یا ڈیڑھ سال پہلے تک کی ہسٹری جاننا بہت ضروری ہے۔دیگر علامات میں ناک سے پانی بہنا، دودھ پر جھاگ کا نہ آنا،جانور کا جسم خاص طور پر پچھلا حصہ کمزور ہو جانا،جسم کے بال سرخ ہوجانا، جسم کے بال جھڑ جانا یا کہیں سے بڑے ہوجانا اور کہیں سے جھڑ جانا۔
چیچڑوں کے انڈوں سے بچے نکلنے یعنی ہیچنگ کیلئے گرم مرطوب موسم درکار ہوتا ہے اور موجودہ موسم بہار میں اچانک کافی گرم موسم ریکارڈ ہوا اور آٹھ دس بارشیں اوپر تلے ہوگئیں۔ جسکی وجہ سے موسم گرم مرطوب ہوگیا اور تھیلیریا پھیلانے والے چیچڑوں انڈوں کی ہیچنگ اور سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔اور جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ تھیلیریا پازیٹو جانوروں میں قوتِ مدافعت بہت کم ہوجاتی ہے اور خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے ۔( خون کی شدید کمی ایک سب سے بڑی وجہ دیہات میں سردیوں میں جانوروں کو رات کے وقت تنگ کمروں میں باندھ کر ان تنگ کمروں کو ہوا بند کر دینے کی فارمر حضرات کی غلط پریکٹس ہے۔فارمر حضرات اپنے طور پر جانوروں کو سردی سے بچا رہے ہوتے ہیں جبکہ دراصل وہ جانوروں کی سانسیں روک رہے ہوتے ہیں کیونکہ رات کے بارہ گھنٹے میں ایک بڑے جانور کو سانس لینے کیلئے 6000 لیٹر ہوا درکار ہوتی ہے جو کہ ایسے ہوا بند کمروں میں کبھی پوری نہیں ہوتی اور صبح کے وقت دروازہ کھلتے ہی جانور رسے تڑوا کر اس ہوا بند کمرے سے باہر بھاگتے ہیں تاکہ سانسیں بحال ہوں۔)
تو تھیلیریا پازیٹو جانوروں میں قوتِ مدافعت کم ہونے کی وجہ سے ویکسین لگنے کے باوجود منہ کھر کا اٹیک ہوگیا جس کو ٹیکل کرنے کیلئے میلاکسی کیم اور ساتھ اینٹی بائیوٹک دی گئی جس سے جانوروں کا ٹمپریچر نارمل ہونے کی بجائے شُوٹ ڈاؤن کر گیا۔میں نے خود فیلڈ سے رپورٹس حاصل کی ہیں اور فامر حضرات پلس ویٹرنری حضرات کا کہنا ہے کہ مرنے سے کچھ دیر پہلے جانور کا ٹمپریچر 95 سے 96 ڈگری فارن ہائیٹ تھا۔ اسی طرح جو اموات گل گھوٹو کے کھاتے میں ڈالی گئی ہیں ان میں جانوروں کو سانس لینے میں مشکل تھی(نہ گلا سُوجا نہ ہی 107 سے 108 ڈگری فارن ہائیٹ ٹمپریچر ہوا) اور ان کو سٹیرائڈ اوراینٹی بائیوٹک دی گئی لیکن اثر نہیں ہوا ۔ مرتے وقت ان جانوروں کا ٹمپریچر بھی شُوٹ ڈاؤں کر چکا تھا۔میرے ساتھ جن فارمر حضرات اور ویٹرنری حضرات نے رابطہ کیا میں نے ان کیسوں میں تھیلیریا کی ٹریٹمنٹ کروائی جس سے تقریباً 100 فیصد ریکوری ہوئی (مثالیں اور ثبوت موجود ہیں)
کینسر میں خون کے سفید خلیے یعنی لمفوسائٹس لامحدود وقت تک لامحدود تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں لیکن تھیلیریا میں ایک خاص سٹیج پر یعنی چار پانچ گنا تک بڑھ کر یا تھیلیریا کے خلاف دوائی استعمال کرنے پر آٹو فیجی یعنی خود کُشی کے عمل سے کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ بہت کم ہوجاتے ہیں۔اور دوائی کورس مکمل کرنے کے بعد اگر انفیکشن دوبارہ نہیں آتی ہو آہستہ آہستہ ان کی مقدار نارمل ہوجاتی ہے۔
فارمر حضرات اور ویٹرنیرین بھائی نوٹ فرما لیں کہ 104 سے 105 ڈگری فارن ہائیٹ تھیلیریا کی پیتھیگنومونک علامت ہے لیکن کیسز کی اکثریت میں ٹمپریچر نارمل یا 100 ڈگری فارن ہائیٹ یا اس سے بھی تھوڑا نیچے ملتا ہے کیونکہ فارمر اپنے ٹوٹکے جیسا کہ پیناڈول کے پتے وغیرہ استعمال کرنے کے بعد ہی ویٹرنیرین کے پاس آتا ہے۔اس بیماری کی صحیح تشخیص کیلئے اوپر دی گئی علامات (جو کہ علاقے کے حساب سے تھوڑی مختلف ہوسکتی ہیں جیسا کہ بہاولپور اور گردو نواح میں تھنوں کی اگلی سائیڈ پر پیٹ کے نیچے پانی کی تھیلی نمودار ہوجاتی ہے۔)، ذاتی مشاہدہ اور تجربہ اور ساتھ میں لیبارٹری ٹیسٹ کا ایک ساتھ استعمال بہت ضروری ہے ۔
لیبارٹری میں زیادہ تر ایک یا دو سلائیڈیں بنا کر تشخیص کی جاتی ہے لیکن بعض دفعہ سلائیڈ کے طریقہ کار سے زیادہ کرونک کیسز میں تھیلیریا کو پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ کرونک کیسز میں یا دوسرے اور تیسیرے اٹیک کے بعد تھیلیریا خون کی وریدوں کی دیواروں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور سلائیڈوں میں نظر نہیں آتا ۔ایسے کیسوں میں سی بی سی (کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ) تشخیص میں آپ کی مدد کرسکتا ہے(جو کہ میں خود استعمال کرتا ہوں) جس میں واضح پتا چلتا ہے کہ ڈبلیو بی سی کاؤنٹ کئی گنا زیادہ اور آر بی سی کاؤنٹ پلس ہیموگلوبن نچلے مارجن پر یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔
تھیلیریا کی وجہ سے لاغر اور حاملہ جانوروں کے علاج میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔حاملہ جانوروں میں ٹمپریچر 104 سے 105 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ دیر نہ رہنے دیں۔ اور اگر جانور کمزور اور لاغر ہو یا اس کا ٹمپریچر 100 ڈگری فارن ہائیٹ یا اس تھوڑا نیچے ہو تو ملٹی وٹامن کے انجکشن اور منرل مکسچر سے اسے نارمل کریں اور پھر بیوپارواقون لگائیں۔بیوپارواقون صرف دو تین کمپنیوں کا ہی صحیح کام کرتا ہے اسلئے دوائی لکھتے وقت خاص خیال رکھیں۔ تھیلیریا کی ٹریٹمنٹ میں ایٹروپین سلفیٹ کا استعمال ضروری کریں۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ علاج کے باوجود تھیلیریا جانور کے جسم سے مکمل نہیں ختم ہوتا اور جانور ہمیشہ کیلئے تھیلیریا کا کیرئیر ہوتا ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ کچھ جانور پہلی دفعہ علاج کے بعد بھی گروتھ اور پروڈکشن جہاں ہوتی ہے وہیں روک دیتے ہیں بلکہ نیچے سے نیچے چلے جاتے ہیں کئی جانور دوسرے اٹیک کے بعد ایسا کرتے ہیں اور جانوروں کی اکثریت تیسرے اٹیک کے بعد دوائی کو رسپانس نہیں دیتی۔ ان کا حل صرف قصائی رہ جاتا ہے۔کیونکہ اس کا علاج ہے ویکسین نہیں۔ چونکہ دوائی کا اثر جسم میں 42 دن تک رہتا ہے اور اس کے بعد بھی اگر جانور اسی انوائرنمنٹ میں چیچڑوں سے گھرا ہوا ہوتو دوبارہ اٹیک ہوجاتا ہے اسی طرح تیسیری دفعہ بھی ہوجاتا ہے۔تمام ویٹرنیرین حضرات اپنے اپنے علاقے کے میڈیکل سٹورز والوں کو آگاہ کریں کہ بیوپارواقون دوائی کو فریج میں ٹھنڈا رکھیں اس سے دوائی کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

Ultravec BEF Vaccine
Active Immunization against EPHEMERAL Fever Fight 3DAY Sickness
سائپر میتھرین لیکوئڈ یا پھر ٹرائی کلورفون کی سپرے اس طریقہ کار میں شامل ہے۔ دوائی پر وضع کردہ مقدارکا سپرے جانوروں کے اوپر فرش پر اور دیواروں پر روزانہ مغرب کے بعد کیا جائے کم از کم ایک ہفتہ لگاتار۔ اور پھر دو تین ہفتے کا وقفہ دے کر ایک ہفتہ لگاتار سپرے کریں۔ یہ طریقہ کار ماحول دوست اور زیادہ مؤثر نہیں ہے۔کیونکہ اس سے کسان کے کئی معاون حشرات اور جانور ہلاک ہوسکتے ہیں اور زیادہ دفعہ سپرے سے چیچڑوں میں دوائی کے خلاف مزاحمت پیدا ہوسکتی ہے۔ اور 99.99 فیصد کسان اتنی محنت نہیں کرتے بلکہ ایسی باتوں پر کان تک نہیں دھرتے۔
آئیورمیکٹن انجکشن کی دریافت 1980-82 میں ہوئی تھی اور مسلسل استعمال سے اس کی کارکردگی کافی ڈاؤن ہوئی ہے۔ لیکن آئیورمیکٹن کا کیمیکل فارمولا تبدیل کرکے ڈورمیکٹن کے نام سے جو دوائی بنائی گئی ہے وہ بہتر رزلٹ دیتی ہے۔اس کیلئے بھی وہی طریقہ اپنانا ہوگا کہ اس دوائی کو بھی ٹھنڈا رکھا جائے اور ٹھنڈے وقت میں یعنی رات کا لگایا جائے۔ شدید گرمی کے موسم میں رات کو بھی لگاتے وقت جانور کو نہلا لیا جائے تو اس بھی بہتر رزلٹ مل سکتا ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے،تجربے اور متعلقہ ضلعی لیبارٹری سے موصول شدہ رپورٹس کے مطابق سولنگ یا کچے فرش پر کھڑے جانوروں میں سے 95 فیصد سے زیادہ جانور تھیلیریا یعنی سائیلنٹ کلر پازیٹو ہیں۔ اگر جانوروں کو چیچڑوں سے بچا لیا جائے تو دوائیوں کی مد میں ہونے والے خرچے کو 99 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے اور بغیر کوئی مزید روپیہ خرچ کئے پیداوار تین سے چار گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ تھیلیریا کو کنٹرول کرنے کیلئے سب سے مؤثر اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ چیچڑوں کی جانوروں تک رسائی کو مکمل بند کر دیا جائے۔ فرش کو پکا کیا جائے اور دن میں کم از کم ایک دفعہ دھویا جائے۔دیواروں پر پلستر کیا جائے اور جانوروں کےریسٹ کیلئے کچا فرش دینے کی بجائے لائف لانگ ربڑ مَیٹ کا استعمال کیا جائے۔نئے خرید کردہ جانوروں کیلئے الگ سے کوارنٹین شیڈ بنایا جائے جہاں پر نئے خرید کردہ جانوروں کو کم از کم تین سے چار ہفتے رکھ کر ان کو چیچڑوں سے پاک کیا جائے اور دوسری متعدی بیماریوں کی ویکسین کی جائے۔گوبر کا سٹاک جانوروں سے دور بہت دور لگایا جائے۔

Al Karam Wanda 22
Al Karam Feeds is a leading Feed Manufacturing Company which provides complete feeding solutions to both small and corporate farms.
لیکن فارمر حضرات کی اکثریت ویٹرنیرین کی یہ بات نہیں مانتی۔ فارمر آگے سے کہتا ہے کہ میری پسلی نہیں ہے اس میں خرچہ زیادہ ہے حالانکہ اگر کسی مستری سے ایسٹیمیٹ لگوایا جائے تو واضح معلوم ہوتا ہے کہ سولنگ لگانے کی بجائے پکے فرش پر لاگت کم آتی ہے اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ لاکھوں روپے کی اینٹیں سولنگ کی شکل میں زمین دفنائے بیٹھا ہے(جو کہ چیچڑوں کی آماجگاہ ہے اور ہر وقت گیلی رہتی ہیں) اور کہتا ہے کہ پسلی نہیں۔ پرانے وقتوں میں گھر کی عورتیں جانوروں کے نیچے سے کچے فرش کی صفائی کرتی تھیں جوکہ ایک تنکا تک نہیں چھوڑتی تھیں ۔ جانوروں کو نہلانے کا کام بھی اکثر گھروں کی عورتیں کرتی تھیں جس سے جانور صاف ستھرے رہتے تھے۔جب سے گھر کی عورتوں نے یہ کام چھوڑا ہے فارمر نے جانوروں کے نیچے سے صفائی چھوڑ دی ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ فرش پکا کرکے دھو لیا جائے اور صفائی آسانی سے ہوجائے لیکن نہیں۔ دوسری کہانی فارمر حضرات یہ سناتے پائے گئے ہیں کہ پکے فرش پہ جانورو سلپ ہوتے ہیں ۔
حالانکہ اگر فرش کو اچھی طرح دھویا جائے اور صاف ستھرا رکھا جائے تو جانور کے سلپ ہونے کا کوئی چانس نہیں اور دیہی علاقوں کے فارمرز کی اکثریت جو جانوروں کو باندھ کر چارہ ڈالتے ہیں وہاں تو جانور کے سلپ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جتنا جدید اور سائنسی بنیادوں پر شیڈ بنایا جائے اتنا ہی خرچہ کم اور فائدہ اور منافع زیادہ ہوتا ہے لیکن ہمارا فارمر پتا نہیں کیوں ضد کئے بیٹھا ہے آڈھا لگائے بیٹھا ہے کہ اس نے تین چار سو سال پہلے کے طریقہ کار پر کاربند رہنا ہے۔ نہر کے سیوریج ملے پانی میں نہلا کر معرکہ سر کرنے کے مترادف سمجھتا ہے کہ اس نے دو تین یونٹ بجلی کے بچا لئے۔
خدانخواستہ جانور کو کچھ ہوجائے تو جانور کی قیمت سات لاکھ سے کم نہیں بتاتااگر جدید طریقہ کار اپنانے کو کہیں تو کہتا ہے کہ پسلی نہیں اور آخر میں تمام مدعا محکمہ لائیوسٹاک پر ڈال دیتا ہے۔یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پر ویڈیوز ہر فارمر دیکھتا ہے لیکن جانوروں کو پرانے کاٹھ کباڑ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ میری پچھلے 26 سالوں کی تبلیغ کے نتیجے میں صرف 3 فارمر ایسے ہیں جنہوں نے فرش کو نامکمل طور پر پکا کیا ہے۔ان میں سے ایک فارمر ایسا ہے جو کہ اس نامکمل فرش کو ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن دھو ڈالتا ہے اور سردیوں میں روزانہ دھوتا ہے.