اداریہ، ڈاکٹر خالد محمود شوق ایڈیٹر ان چیف، دی ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں 15 فروری کو CASآڈیٹوریم میں سویابین کے کاشتکاروں کا سیمینار منعقد کیا، جنہوں نے پچھلے سال یونیورسٹی کی تحریک پر سویابین کاشت کی ،
سیمینار میں فارمرز کے علاوہ یونیورسٹی کے زرعی سائنسدان ،پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل اسلام آباد سے سینئر ڈائریکٹر کراپ سائنسز (جو سویابین پروگرام کے بھی مجموعی طور پر نگران ہیں) ، پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن عامر ممتاز (چیف ایگزیکٹو ممتاز فیڈ )، آل پاکستان سالونٹ ایکسٹریکشن ایسوسی ایشن کے رہنما اور کشمیر گھی کے روح رواں میاں نصیر مگوں، انجمن کاشتکاراں پنجاب کے صدر رانا افتخار احمد، پنجاب چیمبر آف ایگری کلچر کے صدر چوہدری شوکت علی چدھڑ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے اس سیمینار میں بھرپور طریقے سے شرکت کر کے اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کو سویابین کی کاشت اور پیداوار کے مسئلہ پر پوری طرح دلچسپی بھی ہے اور فکر بھی کہ پاکستان میں سویابین کو بھر پور طریقے سے کاشت ہونا چاہئے۔
سیمینارمیں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ تیلدار اجناس کی طرف سے ان کے اسٹال پر شرکاءکی تواضع کے لئے سویابین کے کباب ، سلاد، سویابین کا سالن، سویابین کی پنجیری اور دیگر فوڈ ویلیو ایڈیشن بھی موجود تھیں۔ اس کے ساتھ زرعی یونیورسٹی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر احمد دین کی قیادت میں ریسرچ آفیسر محترمہ پونم بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ اسٹال پر موجود تھیں جس پر ان کے سویابین ویلیو ایڈیشن پراجیکٹ کی مصنوعات سویابین کے بسکٹ، سویابین دودھ، سویابین کا سالن، سویابین کی پنجیری، سویابین پروٹین، سویابین کے نگٹس، سویابین کا آٹا اور سویابین سے تیار کیا گیا ٹوفو بھی موجود تھا، جس کا وزٹ کرنے کے بعد سویابین کی غذائی اہمیت کے بارے میں عملی طور پر شرکاءکو آگاہی ملی۔
اسلام آباد میں سویابین سے تیار کردہ کمرشل بنیادوں پر سویابین کے مختلف ذائقوں کا دودھ بھی دستیاب تھا جس کے منتظمین شرکاءکو سمپل کے طور پر دودھ کی بوتلیں گفٹ دے رہے تھے۔ غرض کہ اس سیمینار نے یہ بات ثابت کی کہ سویابین حقیقی طور پر پاکستان کی معاشی ترقی کا ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے، سیمینار اس لحاظ سے سب سے زیادہ بامقصد تھا، کہ اس میں کوئی لمبی چوڑی تقریریں نہیں کی گئی بلکہ تین گھنٹے مسلسل سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا، جس کو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے خود کنڈیکٹ کیا اور ہر موضوع پر سوال و جواب ہوئے اور شرکاءنے تبادلہ خیال کیا۔
سب سے زیادہ بحث سویابین کی مارکیٹنگ کے موضوع پر ہوئی جس میں کسانوں کا اصرار تھا کہ حکومت ان کی پیداوار کو خریدنے کےلئے کوئی موثر نظام وضع کرے تاکہ وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ سویابین کی کاشت جاری رکھیں۔
فوکل پرسن ڈاکٹر ظہیر احمد نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے سویابین اُگانے کے لئے جو ٹارگٹ طے کیا تھا اس کو ہم نے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا بلکہ 100 فارمرز کی بجائے 170 فارمرز نے سویابین کی فصل کاشت کی اور پورے ملک میں یہ تجربات کامیابی سے مکمل کئے گئے۔ اب ٹارگٹ بڑھ کر ایک ہزار ایکڑ پر سویابین کی فصل کی کاشت کا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ یہ ٹارگٹ باآسانی پورا ہو جائے گا۔
سویابین کی مارکیٹنگ کے مسئلے پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد کا موقف تھا کہ پولٹری انڈسٹری اور آئل ایکسٹریکشن انڈسٹری کو آگے بڑھ کر کسانوں کا ساتھ دینا چاہئے اور کنٹریکٹ پر سویابین کی فارمنگ شروع کروائی جائے۔ اس مسئلے پر حکومت کو بھی کسانوں کی پشت پناہی کرنی چاہئے اور کچھ نہ کچھ ریگولیٹری انتظام کرنا چاہئے۔ سویابین کی امپورٹ پر ڈیوٹی لگانی چاہئے بلکہ ملکی کاشت کو تحفظ دینے کے لئے یہ ڈیوٹی زیادہ ہونی چاہئے۔ انہوں نے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دی کہ وہاں پر سویابین پر ڈیوٹی عائد کی گئی ہے تاکہ ان مقامی کسانوں کو فائدہ ہو۔ کسانوں سے سویابین کی خریداری کے مسئلے پر میاں نصیر مگوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی اور اعلان کیا کہ اس سال کسان جو بھی سویابین پیدا کریں گے ان کا ادارہ وہ سویابین ان سے خرید کرے گا۔
یہ سیمینار اس لحاظ سے بھی بہت کامیاب تھا کہ شرکاءکی تواضع کے لئے سویابین کے پکوڑے ، سویابین کے بسکٹ بھی وافر مقدار میں چائے اور کھانے میں موجود تھے۔ اس سیمینار کی کامیابی اور نتائج پر ہم وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں اور ان کی ٹیم کو بھر پور مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سویابین کی ترقی کے لئے جو سفر اور عزم انہوں نے شروع کیا ہے وہ کامیابی کے ساتھ اپنی منزل حاصل کر لے گا۔ سویابین پاکستان کا معاشی مستقبل ہے اور یہ پاکستان کے عوام کی صحت کو بھی درست رکھنے کا باعث بنے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور حکومت یکجا ہو کر سویابین کی پیداوار بڑھانے کے لئے متحد ہو جائیں۔ سویابین کی فصل جتنی زیادہ پیدا ہو گی اتنی زیادہ ہی مسائل میں کمی آئے گی کیونکہ پولٹری انڈسٹری کو سویابین میل کے لئے لاکھوں ٹن سویابین کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پاکستان میں اس طریقے سے پوری کی جا سکتی ہے کہ سویابین کی مقامی کاشت کو فروغ دیا جائے جس کے لئے کسانوں کو اچھی قسم کا بیج اور دیگر مداخل فراہم کئے جائیں ان کی عملی تربیت کی جائے تاکہ دوران فصل پیدا ہونے والے مسائل کو وہ حل کر سکیں۔حکومت اس بارے میں پوری طرح سنجیدہ ہو اور پولٹری انڈسٹری کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ان کو سویابین کی وہ قسم فروغ دی جائے جو ان کی ضرورت کے مطابق پروٹین مہیا کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ قوم کا اجتماعی مزاج بھی تبدیل کرنے کا بھی کام کرنا ہو گا۔ سچی بات ہے کہ ہماری قوم کھانے میں تیل استعمال نہیں کرتی بلکہ پٹرول کی طرح تیل پیتی ہے، دنیا بھر میں صحت مندلوگ فی کس 8 لٹر سالانہ خوردنی تیل کا استعمال اپنی خوراک میں کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں 24 لٹر خوردنی تیل فی کس سالانہ استعمال کیا جاتا ہے جو صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور ہماری معیشت کے لئے بھی خطرناک ہے۔ تیل کی درآمد پر ہم لاکھوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر دیتے ہیں اس کے بدلے ہم جو تیل کھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ پام آئل ہے۔ پام آئل کسی طرح بھی کھانے کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا یہ صحت کےلئے بھی خطرناک ہے اس سے آپ صرف صابن بنا سکتے ہیں۔ ہمیں حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے اور پوری طرح سچ بولتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کرنا چاہئے، صحت مند پاکستان اس صورت میں ترقی کر سکتا ہے کہ جب ہم اپنے کھانے ،پینے اور سوچنے سمجھنے میں اپنی فکر کو درست رکھیں یاد رکھیئے کہ گندم کی پیداوار کو بڑھا کر ہم اپنی غذائی ضرورت پوری کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم تین وقت صرف ایک ایک روٹی پر گزارہ کریں اور اس روٹی میں بھی مکئی ، باجرہ، چنے، سویابین اور دیگر اجناس کو ساتھ ملا کر ملٹی گرین آٹے کی شکل میں اپنی غذا پوری کریں تو ملک کی معیشت بھی تندرست ہو سکتی ہے اور عوام بھی، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی گزارش کریں گے کہ سویابین کی کاشت کے سلسلے میں کام کرنے والے زرعی سائنسدانوں کو بھی اعلیٰ سطح پر ایوارڈ دینے کا بندوبست کیا جائے ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے ، کسانوں میں بھی سویابین کی کاشت کے مقابلے کروائے جائیں اور جو کسان زیادہ پیداوار کریں ان کو انعامات دیئے جائیں ان کی تشہیر کی جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں۔ شنید ہے کہ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی طرف سے سویابین کی پیداوار بڑھانے کے لئے جلد ایک مربوط لائحہ عمل کا اعلان کیا جا رہا ہے ، امید کی جاتی ہے کہ اس لائحہ عمل کی تیاری میں انڈسٹری کے صنعت کاروں اور ماہرین کی آراءکو مدنظر رکھا جائے تو منزل جلد قریب آئے گی۔ سویابین کی فصل پر تحقیقات ، ترقی، مسائل اور ان کے حل کے لئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں نیشنل سویابین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر قائم کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن کو خصوصی توجہ دی جائے ، یونیورسٹی کے فوڈ سائنس ڈیپارٹمنٹ کو اس سلسلے میں خصوصی ٹارگٹ دیا جائے اور ویلیو ایڈیشن کے لئے عام افراد کو ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ سویابین کے بارے میں اپنے کاروبار کو ترقی دیں۔ سویابین کی فصل کامیاب ہوئی تو پاکستان اس کی ویلیو ایڈیشن مصنوعات سے بھاری زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے ، ہمارا سب سے بڑا گاہک چین ہو گا جو اس کا استعمال کر رہا ہے۔
فیصل آباد کے ایک نوجوان سہیل احمد خاں نے بیکری کے شعبے میں (بٹر اینڈ کیک لاﺅنج 03004076606)سویابین کی مصنوعات کو خصوصی ترجیح دے کر پیش رفت کی ہے ، سہیل احمد خاں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ایلومینائی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ کمرشل بنیادوں پر وہ مزید پیش رفت کریں گے اور سویابین کی ترقی کیلئے ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے گی۔