
ڈاکٹر علمدار حسین ملک
dralamdarhussainmalik@gmail.com
پاکستان کا لائیو اسٹاک اور ڈیری سیکٹر: خواب یا بحران؟پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا سہارا وہ گاں دیہات ہیں جہاں دودھ اور مویشی ہر گھر کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لائیو اسٹاک اور ڈیریشعبہ ہمارے جی ڈی پی کا تقریبا ایک چوتھائی فراہم کرتا ہے اور کروڑوں افراد کے لئے روزگار کا ضامن ہے۔ مگر آج یہ شعبہ شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ کسان بھی پریشان ہے اور صارف بھی۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023-24 میں ملک میں دودھ کی پیداوار تقریبا 70.07 ارب لیٹر رہی، جس میں بھینس کے دودھ کا حصہ 41.89 ارب لیٹر اور گائے کے دودھ کا حصہ 26.10 ارب لیٹر ہے۔ اس میں سے تقریبا 56.5 ارب لیٹر دودھ انسانوں کی کھپت کے لئے دستیاب ہے، باقی یا تو مویشیوں کی خوراک میں استعمال ہو جاتا ہے یا سپلائی چین میں ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے بڑے دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور ہماری دودھ کی پیداوار میں سالانہ اضافہ تقریبا 3.2 فیصد ہے۔
مگر یہ ترقی غیر منظم ہے کیونکہ دودھ کی تقریبا 95 فیصد مقدار غیر رسمی چینلز کے ذریعے فروخت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسان کو منافع نہیں ملتا اور صارف کو معیاری دودھ دستیاب نہیں ہوتا۔کسانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ لاگت ہے۔ چارہ اور فیڈ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایندھن اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ کسان پسینے میں نہا کر بھی خالی جیب رہتا ہے، جبکہ شہری صارف مہنگا دودھ خریدنے پر مجبور ہے۔بیماریوں کی وبائیں اس بحران کو اور شدید کر رہی ہیں۔ فٹ اینڈ ماتھ ڈیزیز اور دیگر بیماریاں ہر سال کروڑوں کا نقصان کرتی ہیں۔ پاکستان کے پاس نہ کوئی جامع ویکسی نیشن پروگرام ہے اور نہ بیماریوں کی مثر نگرانی کا نظام۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ آزادی کے 78 سال بعد بھی پاکستان مقامی ایف ایم ڈی ویکسین پروڈکشن فیسلٹی قائم نہ کر سکا۔ اس غفلت کے باعث غریب کسان سالانہ 200 ارب روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک میں درکار 300 ملین ڈوزز کے مقابلے میں دستیاب وسائل سے ویکسینیشن کوریج 5 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ بیماری پر قابو پانے کے لئے کم از کم 80 فیصد کوریج ضروری ہے۔اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ایف ایم ڈی کے باعث پاکستان پر مویشی اور ڈیری مصنوعات کی برآمد پر پابندی عائد ہے۔
اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پاکستان سالانہ اربوں ڈالر زرِ مبادلہ کما سکتا ہے، مگر موجودہ صورتحال میں ہم نہ صرف داخلی سطح پر دودھ اور گوشت کے بحران سے دوچار ہیں بلکہ برآمدی مارکیٹ سے بھی محروم ہیں۔ یوں یہ بیماری قومی معیشت پر دوہرا وار کر رہی ہے۔پاکستان میں دودھ کی پیداوار اور سپلائی کا سب سے بڑا مرکز لینڈھی کیٹل کالونی کراچی ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی کیٹل کالونی کہلاتی ہے۔ یہاں پانچ لاکھ سے زائد دودھ دینے والے مویشی موجود ہیں۔ مگر افسوس کہ اس مقام پر ویٹرنری علاج، ویکسی نیشن اور دودھ کی کوالٹی کنٹرول کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔ اگر وفاقی حکومت اس کالونی کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کرے تو ملک کی دودھ کی پیداوار اور بیماریوں پر قابو پانے میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سے ہر سال بڑی تعداد میں ویٹرنری گریجویٹس نکل رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کلینیکل مہارت اور مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ کسان جب بروقت اور معیاری ویٹرنری خدمات سے محروم رہتا ہے تو پیداوار اور جانوروں کی صحت مزید متاثر ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل (PVMC) کا کردار نصاب کو مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور معیار کی نگرانی تک محدود رہنا چاہیے تاکہ فریش گریجویٹس عملی طور پر قابل ہوں۔ایک اور بڑا سوال بجٹ سازی سے جڑا ہوا ہے۔
لائیو اسٹاک اور ڈیری شعبہ قومی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالنے کے باوجود بجٹ سازی میں اس کے تقاضوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں دیکھا جاتا۔ فنڈز کی کمی نے اس شعبے کو ہمیشہ ثانوی حیثیت میں رکھا ہے، حالانکہ یہی شعبہ ملک کی فوڈ سیکیورٹی کی ضمانت ہے۔پاکستان میں دودھ کی فی کس کھپت تقریبا 231 لیٹر سالانہ ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہتر ہے، لیکن مسئلہ معیار اور رسائی کا ہے۔ صاف، محفوظ اور معیاری دودھ اب بھی لاکھوں صارفین کی پہنچ سے باہر ہے۔ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ درآمدی دودھ پاڈر اور اسکِمڈ ملک بار بار طلب پوری کرنے کے لئے منگوایا جاتا ہے۔

حکومت کو اب فوری طور پر مویشیوں کی جینیاتی بہتری پر توجہ دینی ہوگی تاکہ فی جانور دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ صرف تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ اصل کامیابی اس وقت ملے گی جب معیار کو بہتر بنایا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور بین الاقوامی ڈونر اداروں کو کسانوں کی آگاہی کے پروگرام براہِ راست دیہات اور مویشی پال کسانوں کے احاطوں میں منعقد کرنے چاہئیں۔ موجودہ روش یہ ہے کہ سیمینار اور یہ طرزِ عمل محض پیسے کا ضیاع ہے اور زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ورکشاپس فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کی جاتی ہیں جہاں اصل کسانوں کو مدعو ہی نہیں کیا جاتا۔
پالیسی تجاویز:
٭ وفاقی حکومت فوری طور پر مقامی ایف ایم ڈی ویکسین پروڈکشن فیسلٹی قائم کرے تاکہ سالانہ درکار 300 ملین ڈوزز مقامی سطح پر تیار ہوں اور کسانوں کو بڑے معاشی نقصانات سے بچایا جا سکے۔
٭ وفاقی سطح پر نیشنل بریڈ امپرومنٹ پروگرام اور بیماریوں کی نگرانی کے لئے نیشنل ڈیزیز کنٹرول اتھارٹی قائم کی جائے۔
٭ صوبائی لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹس کسانی سطح پر ویکسی نیشن پروگرام، ویٹرنری سروس ڈیلیوری اور دودھ کی کولڈ چین و چھوٹے پراسیسنگ یونٹس کے قیام پر توجہ دیں۔
٭ کسانی سطح پر آگاہی پروگرام کو ترجیح دی جائے اور ڈونر فنڈز براہِ راست گاں کے کسانوں پر خرچ ہوں۔
٭ حکومت کو ڈیری ویلیو ایڈیشن کے فروغ کے لئے جامع پالیسی وضع کرنی چاہیے اور اس مقصد کے لئے کسانوں اور چھوٹے ڈیری فارمرز کو سود سے پاک قرضوں کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔
٭ وفاقی حکومت کو لینڈھی کیٹل کالونی کراچی کو قومی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے اور وہاں بہتر ویٹرنری علاج، ویکسینیشن اور ڈیری انفراسٹرکچر فراہم کرنا چاہیے تاکہ یہ قومی معیشت کا حقیقی مرکز بن سکے۔
٭ ویٹرنری نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے تاکہ فریش گریجویٹس عملی طور پر کلینیکل مہارت اور مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس عمل میں PVMC کو نصاب کی ریگولیشن اور معیار کی نگرانی کا مثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
٭ وفاقی و صوبائی بجٹ میں لائیو اسٹاک اور ڈیری شعبہ کو اس کے جی ڈی پی میں حصہ کے مطابق فنڈز مختص کئے جائیں۔
( صاحب مضمون : مشیر ویٹرنری سائنسز، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز سوات، سابق سیکرٹری/رجسٹرار، پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل ہیں)